مولانا محمد راشد شفیع
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار اور لاتعداد ہیں، جنہیں کوئی گن نہیں سکتا اور نہ کوئی ان کا احاطہ کر سکتاہے، پیدائش سے موت تک انسان اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال کرتاہے،اور اللہ کی نعمتوں میں بچپن، جوانی، بڑھاپا گزارتا ہے، سب سے پہلی نعمت انسان کی صورت میں ملتی ہے جو کہ اشرف المخلوقات ہے، پھر اعضاء کی سلامتی، قوت گویائی، قوت شنوائی غرض تمام اعضاء اللہ کی طرف سے عطاشدہ نعمت کی صورت میں ہمیں ملتے ہیں،پھر انسان کو اپنی محدود زندگی میں لاتعداد اور بے شمار اللہ کی نعمتوں سے واسطہ پڑتاہے جسے ایک انسان اگر ساری عمر شمار کرناچاہے تو شمار نہیں کرسکتا،چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو انہیں پورا شمار نہ کر سکو گے، بےشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (سورۃ النحل، 16 : 18)
اللہ تعالیٰ کی انہی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت صحت کی نعمت ہے کہ صحت کی حالت میں انسان تمام دینی اور دنیاوی کام انجام دے سکتا ہے، صحت کی نعمت کی وجہ سے سکون کی زندگی گزارتا ہے، اطمینان قلب کے ساتھ رہتا ہے، مگر ہمارے معاشرے میں خاص طور پر صحت کی نعمت کی قدرنہیں کی جاتی، مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ صحت کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرے اور صحت کی حالت میں اعمال صالحہ پورے جذبے کے ساتھ انجام دے اور ناقدری سے اپنے آپ کو بچائے، جیساکہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے، عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:” دو نعمتیں ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے اور گھاٹے میں ہیں: صحت اور فراغت“۔(سنن ترمذی،کتاب الزھد)
اس حدیث مبارکہ میں نبی اکرم ﷺنے جن دو نعمتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اکثر لوگ ان دو نعمتوں کی ناقدری کرتے ہیں، وہ صحت کی نعمت ہے اور فرصت کی نعمت ہے، جیسا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ فرصت کے اوقات فضولیات اور لغویات میں ضائع کر دیتے ہیں، اور فرصت کے اوقات میں اپنے آپ کو ایسے کاموں میں مشغول رکھتے ہیں کہ جن کاموں میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور نہ آخرت کا کوئی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، حدیث میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ طلوع ہوتا ہو، مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے، میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔دوسری حدیث میں ہے ،حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ،آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔(ترمذی)
دوسری چیز جس کے بارے میں نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کی اکثر لوگ ناقدری کرتے ہیں وہ صحت کی نعمت ہے، صحت کی ناقدری اس طرح ہوتی ہے کہ صحت کے زمانے میں اگر آدمی کوشش کرے تو وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوب عبادت کر سکتا ہے، ذکر و اذکار کر سکتا ہے، تسبیحات کر سکتا ہے اور قران کریم کی تلاوت کر سکتا ہے اور اعمال صالحہ میں اور نیک کاموں میں اور عبادات میں خوب مجاہدہ کر سکتا ہے ،مگر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان صحت کی حالت میں نیک اعمال کو فراموش کر دیتا ہے اور لاپروائی کے ساتھ صحت کی نعمت کی ناقدری کر دیتا ہے حالانکہ صحت کی نعمت کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر آدمی صحت کے اندر کسی عبادت کا عادی ہو اور بیماری کے ایام میں وہ عبادت نہ ہو سکتی ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ بیماری کی حالت میں اسی عبادت کا ثواب عطافرماتا ہے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب مومن بندہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرشتے سے فرماتا ہے:ان نیک اعمال کو اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دیا کرو، جنہیں وہ (صحت کے زمانے میں) کیا کرتا تھا، پھر اللہ تعالیٰ اسےشفاءوصحت عطافرما دے،تو اسے گناہوں سے پاک وصاف فرما دیتا ہے، اگراسے اپنے پاس بلالے،تو اسے معاف فرمادیتا ہے اور اس پررحم فرماتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادۃ المریض)
حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب کوئی بندہ کوئی عبادت کرتا رہے، پھر بیمار ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتا ہے: اس بندے کے لیے اس عمل کا ثواب بھی لکھو جوعمل وہ صحت کی حالت میں کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں اسے صحت دے دوں،یا اپنے پاس بلالوں۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الجنائز،باب عیادۃ المریض)
حضرت شقیق ؒ فرماتے ہیں:حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیمار تھے، ہم لوگ عیادت کے لیے حاضر ہوئے، حضرت ابن مسعودؓ رونے لگے،ہم نے آپ کو تسلی دی، تو آپ نے فرمایا: میں بیماری سے پریشان ہوکر نہیں رورہا ہوں، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ بیماری گناہوں کے لیے کفارے کا ذریعہ ہے، اس لیے بیماری سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں اس بات پر رو رہا ہوں کہ بیماری کمزوری کے زمانے (بڑھاپے کی عمر جس میں طاقت وقوت مفقود ہونے کی وجہ سے انسان عمل نہیں کرسکتا)میں آئی ہے، محنت کے زمانے میں بیماری آتی، تو بیمار ہونے سے پہلے جو اعمال کرتا تھا، بیماری کے زمانے میں بھی ان اعمال کا اجروثواب لکھاجاتاہے(اس بات پر رورہاہوں)۔(مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض)
اسی لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ عظیم نعمت صحت کی قدر کریں اور صحت میں خوب عبادت کریں، تاکہ ہمیں آزمائش اور بیماری کے ایام میں بھی اس عبادت کا ثواب ملتا رہے اور صحت کی نعمت کو بیماری سے قبل غنیمت جانیں،جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، عمرو بن میمون اودی ؒ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے۔ “ (مشکوٰۃ المصابيح،کتاب الرقاق)اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحت کی نعمت کی قدر کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)