• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ہمارے یہاں ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ کئی اور لوگ آتے ہیں اور اکثر چھوٹی بڑی چیزیں بھول جاتے ہیں۔ اگر ہمیں نام پتا مل جاتا ہے تو انہیں وہ چیزیں واپس دے دیتے ہیں ،لیکن بعض دفعہ اصل مالک کا پتا نہیں چلتا وہ چیزیں ہمارے پاس جمع رہتی ہیں، معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا ہم اُنہیں فروخت کرکے اُس رقم کو غریب مریضوں پر خرچ کرسکتے ہیں ،اصل مالک کے انتظام میں یہ چیزیں کتنی مدت تک رکھنا چاہئیں ؟(ٹبا ہارٹ انسٹیٹیوٹ ،کراچی )

جواب: شریعت کی اصطلاح میں ایسی چیز کو لُقطہ کہتے ہیں ،جو کسی شخص کو راستے میں گری پڑی ہوئی مل جائے۔ حدیث پاک میں ہے : حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺسے لُقطہ(گری پڑی چیزوں ) کے بارے میں سوال ہوا،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لُقطہ حلال نہیں ہے، جو شخص پڑا مال اٹھائے ،اُس کی ایک سال تشہیر کرے اگر مالک آجائے تو اُسے دے دے اور نہ آئے تو صدقہ کردے ،(سنن دارقطنی) ‘‘۔ لُقطہ کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ اشیاء ہیں جو قیمتی نہیں ہیں اور اُن کا مالک اُن کی تلاش میں سرگرداں نہیں ہوتا،جیسے کھجور کی گٹھلیاں، انار کے چھلکے ،ردی کاغذ ،خالی بوتلیں ، رَدّی کپڑے وغیرہ ۔دوسری قسم وہ چیزیں جن کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ اُن کا مالک اُن کو طلب کرے گا، جیسے قیمتی اشیاء ۔

ترجمہ:’’ حضرت جابر ؓبیان کرتے ہیں: ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عصا ، کوڑے ، رسّی اور اِس جیسی چیزوں کے بارے میں رخصت دی ہے کہ کوئی شخص اٹھالے تو اُس سے فائدہ اٹھالے ،(سُنن ابو داؤد :1717)‘‘۔علامہ برہان الدین ابو بکر الفرغانی حنفی لکھتے ہیں : ترجمہ:’’ لُقطہ اُس شخص کے پاس امانت ہے جو اُسے اٹھائے ،بشرطیکہ اٹھاتے وقت اُس نے اِس بات پر کوئی گواہ مقرر کرلیاہو کہ وہ اِس کی حفاظت کرے گا، اور اس کے مالک سے ملاقات ہوجانے کی صورت میں اُسے واپس کردے گا ،اِس غرض سے اُفتادہ چیز کو اٹھانے کی شرعاً اجازت ہے ،بلکہ عام علماء کے نزدیک ایسے مال کو اسی طرح پڑارہنے سے اٹھالینا ہی افضل ہے ۔اور اگر اُس مال کے ضائع ہوجانے کا خوف ہو تو اُسے اٹھالینا واجب ہے، (ہدایہ ، جلد4،ص:336)‘‘۔

اُس شے کے مالک تک پہنچانے کے لیے ایک مدت تک اُس کا اعلان یا تشہیر کرانا ضروری ہے ،اِس مدت کو فقہاء نے مختلف بیان کیاہے ، علامہ برہان الدین ابو بکر الفرغانی حنفی لکھتے ہیں : ترجمہ:’’( صاحبِ قدوری رحمہ اللہ نے) فرمایا: اگر وہ لُقطہ دس درہم سے کم کا ہو تو چند دنوں تک اس کی شناخت اور تشہیر کراتا رہے اوراگر وہ دس درہم یا اس سے زیادہ کا ہو توایک سال تک اُس کی تشہیر کرے۔ مصنف علیہ الرحمہ نے کہا کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے یہ ایک روایت ہے۔ یہاں جو چند دن تشہیر کرنے کا قول کیاہے ،اُس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی سمجھ کے مطابق مناسب دنوں تک تشہیر کرے۔

امام محمدؒ نے اصل (مبسوط ) میں قیمت میں کمی بیشی کے فرق کے بغیر ایک سال کی مدت مقررکی ہے اورامام مالک وامام شافعی رحمہما اللہ کا بھی یہی قول ہے ،کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جو شخص لُقطہ اٹھائے ،وہ ایک سال تک اُس کا اعلان کرے ‘‘۔حدیث میں بھی تھوڑی چیز کی قیمت کی تفصیل میں جائے بغیر یہ مدت مقرر کی گئی ہے۔

پہلی روایت کی وجہ یہ ہے کہ ایک سال کی تعیین ایسے لقطہ کے بارے میں ہے جو سو دینار (سونا) جوہزار درہم(چاندی) کے مساوی ہو ،ہم نے دس درہم اور اس سے زیادہ کو بھی ہزارکے معنی میں اِس بناء پر لیا ہے کہ دس درہم کی قیمت کے مال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے اور(کم ازکم) دس درہم مہر مقرر ہونے سے عورت (شوہر پر)حلال ہوجاتی ہے ،لیکن زکوٰۃ کے مسئلے میں دس درہم ہزار درہم کے معنی میں نہیں ہوتے ،اس لیے دس درہم میں بھی ہم نے احتیاطاً ایک سال کی تشہیر کی شرط لازم کی ہے۔

جو مقدار دس درہم سے کم ہو، وہ کسی طرح سے بھی ہزاردرہم کے معنی میں نہیں ہے ،اس لیے ہم نے اس کی تشہیر کے بارے میں مدت کو مُلتقِط(مال اٹھانے والے) کے اپنے ذاتی فیصلے پر چھوڑ دیا ہے اور بعض فقہاء نے فرمایاہے کہ صحیح یہی ہے کہ ان مدتوں میں کوئی مدت بھی لازمی نہیں ہے بلکہ ملتقِط کی اپنی رائے پر موقوف ہے،وہ برابر اعلان کرتارہے، یہاں تک کہ اس کے غالب گمان میں یہ بات آجائے کہ اب اس کا مالک اُسے تلاش نہیں کرے گا،اس کے بعد اُسے صدقہ کردے ،(ہدایہ ،جلد4،ص:337-338)‘‘۔

پس آپ وہ اشیاء اپنے ادارے میں کسی جگہ اسٹور کرتے رہیں اور اِس دوران اُن اشیاء کے مالکان کی تلاش کے لیے مناسب تشہیر کے ذرائع اختیار کریں ،جس کی مدت آپ کی صوابدید پر منحصر ہے ،مالک کے نہ ملنے کی صورت میں آپ اُسے صدقہ کردیں یا فروخت کرکے اُس رقم کو غریب ونادار مریضوں کے علاج معالجے میں صرف کریں۔ اِس مسئلے پر شیخ الحدیث والتفسیر علامہ غلام رسول سعیدی نے تبیان القرآن جلد5، صفحات695تا 704 پر تفصیلی بحث فرمائی ہے، وہاں مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

ہماری رائے میں آپ کے لیے تشہیر کی یہی صورت کافی ہے کہ اس مقصد کے لئے ہاسپٹل میں ایک نوٹس بورڈ آویزاں کردیں اور اُس پر اُن اشیاء کی فہرست کہ اگر کوئی اُن کا مالک ہے تو نشانی بتاکر لے جائے ،آج کے دور میں ایک سے تین ماہ کی مدت بھی کافی ہے ،مدت میں کمی بیشی چیز کی نوعیت پر منحصر ہے، کیونکہ جسے اپنی چیز کی تلاش میں دلچسپی ہوگی،وہ اس عرصے میں رجوع کرلے گا، کیونکہ طویل مدت کے لئے اِن اشیاء کی حفاظت بھی ایک مسئلہ ہے۔

اقراء سے مزید