عہدِ جدید میں جن مسلمان مفکّرین اور دانش وَروں نے اہل علم و فکر کو اپنی دانش و حکمت سے حد درجہ متاثر کیا، اُن میں ڈاکٹر علاّمہ اقبالؒ ہر اعتبار سے سرِ فہرست ہیں۔ علاّمہ اقبال کے علم و حکمت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے افکار و نظریات نے نہایت کم وقت میں پورے عالمِ اسلام کے باشعور و تعلیم یافتہ حلقوں میں مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے اپنی شاعری اور فکر کے ذریعے صدیوں سے جمود کے شکارہندوستانی مسلمانوں میں عقابی رُوح بیدار کی اور انہیں مایوسی اور محکومی کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل کر جدوجہد کرنے پر آمادہ کیا۔
اقبالؒ نے اپنے تصوّرات عام کرنے کے لیے جو ذرایع استعمال کیے، وہ نظم اور نثر دونوں پر مشتمل ہیں، لیکن اُن کے ٹھوس و مدلّل افکار و خیالات شاعری کے علاوہ زیادہ تر اُن کے خطبات پر مبنی ہیں، جو انہوں نے انگریزی زبان میں مختلف جامعات اور تعلیمی اداروں میں پیش کیے، مگر انہیں شُہرت و مقبولیت اپنے خطبات اور نثری تصانیف کی بہ جائے شاعری کے سبب حاصل ہوئی، جو اُن کے خیالات و جذبات کے ساتھ ان کی دانش و حکمت کے اظہار کے لیے بھی ایک انتہائی مؤثر وسیلہ ثابت ہوئی۔
اقبالؒ کے شعری مجموعے، بانگِ درا، بالِ جبریل، ضربِ کلیم، ارمغانِ حجاز، پیامِ مشرق، اسرارِ خودی اور جاوید نامہ سمیت دیگر اپنی الگ الگ تاثیر کی وجہ سے مقبولیت کے حامل ہیں اوران سے کسبِ فیض کا سلسلہ پوری دُنیا میں تواتر سے جاری ہے، جب کہ مختلف یورپی ریاستوں سمیت مشرقِ بعید کے ممالک، بالخصوص انڈونیشیا، چین اور جاپان میں مقامی زبانوں میں ان کی شاعری کا ترجمہ بھی کیا جا رہا ہے۔
تاہم، اس اعتبار سے جاپان کو ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے کہ یہاں اقبال کے اردو کلام کا ایک نظم و ترتیب کے ساتھ جاپانی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے اور یہ کارنامہ دائتو بنکا یونی ورسٹی، سائتاما کے شعبۂ اردو کے استاد، پروفیسر ہیروجی کتاؤکا نے انجام دیا ہے۔ پروفیسر کتائونہ صرف جاپانی زبان میں اقبالؒ کی شاعری کا ترجمہ کر کے جاپانیوں کو اقبال کی فکر و حکمت سے متعارف کروانے کا وسیلہ بنے بلکہ ’’بالِ جبریل‘‘ کے ترجمے پر انہیں جاپان کے ممتاز ادارے ،’’جاپان سوسائٹی آف ٹرانسلیٹرز‘‘ نے بہترین مترجّم کے اعزازسے بھی نوازا۔
گرچہ اقبالؒ کا پورا کلام ہی انتہائی متاثر کُن ہے، لیکن ان کے آخری دَور کی نمایندہ و مثالی تخلیقات میں سے ’’جاوید نامہ‘‘ ایک ایسی تخلیق ہے، جس نے اپنی فکری و معنوی خوبیوں کے سبب انہیں دُنیا کے عظیم ترین شعرا کی فہرست میں لا کھڑا کیا ۔ ’’جاوید نامہ‘‘ میں دراصل اقبال نے مشرق و مغرب کی نمایندہ شخصیات کی زبانی آج کی دُنیا کے حالات، مسائل، افکار اور مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کے نقوش نمایاں کیے اور یہ اقبال کی ایک ایسی تخلیق یا کاوش ہے، جو اُن کی دیگر تخلیقات کو بھی سہارا فراہم کرتی ہے۔ علاّمہ اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ ایک ایسے دَور میں تخلیق کیا کہ جب بالخصوص ہندوستانی مسلمان نہایت مشکلات و مصائب کا شکار تھے۔
انہوں نے مسلمانوں کو حالات سے مقابلے پر آمادہ کرنے کے لیے ’’جاوید نامہ‘‘، ’’معراج نامہ‘‘ اور Divine Comedy کے انداز سے تخلیق کیا، کیوں کہ وہ چاہتے تھے کہ اُن کا یہ کلام مسلمانوں میں مقبولِ عام ہو اور وہ اس میں پیش کردہ فکر و دانش سے حقیقی استفادہ کریں۔ اور ’’جاوید نامہ‘‘ کی اسی انفرادیت کی بدولت جاپان کے ماہرِ اقبالیات، پروفیسر ہیروجی کتاؤکا نے اسے جاپانی زبان میں منتقل کیا، جس پر وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ اس ترجمے کے سبب ہی جاپان کے سنجیدہ و موقر علمی حلقوں میں پروفیسر کتائوکا کی شُہرت و وقار میں بھی اضافہ ہوا اور جاپان کے ایک مؤقر ادارے، ’’جاپان سوسائٹی آف ٹرانسلیٹرز‘‘ نے ان کی اس کاوش کو ایک منفرد کارنامے سے تعبیر کیا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پروفیسر ہیروجی کتاؤکا نے خود کو اقبالیات کے لیے وقف کردیا ہے۔ اُن کی ادبی زندگی کا آغاز ’’ٹوکیو یونی ورسٹی آف فارن اسٹڈیز‘‘ میں اردو زبان سیکھنے سے ہوا اور پھر انہوں نے بہ تدریج اردو زبان میں مہارت حاصل کی۔ انہوں نے دو سالہ وظیفے پر جامعہ کراچی میں بھی اردو زبان و ادب کی تعلیم حاصل کی اور پھر جاپان واپس جا کر ’’اوساکا یونی ورسٹی‘‘ کے شعبۂ اردو میں تدریس کا آغاز کیا اور بعدازاں 1986ء میں ٹوکیو کے نواحی علاقے سائتاما میں نئی قائم ہونے والی ’’دائتو بنکا یونی ورسٹی‘‘ میں شعبۂ اردو قائم کر کے اپنی ساری پیشہ ورانہ زندگی، اردو زبان کی تدریس کے لیے وقف کر دی۔
پروفیسر کتائو کا اردو سے خصوصی اُنسیت کے سبب اقبال کے شعری کلام کے علاوہ اردو کے نمایندہ افسانہ نگاروں میں سے سعادت حسن منٹو کے تقریباً تمام معروف افسانوں کو جاپانی زبان میں منتقل کر چُکے ہیں اور اردو زبان و ادب کی ان ہی گراں قدر خدمات پر حکومتِ پاکستان نے 2010ء میں انہیں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا، جب کہ اقبال کے کلام خصوصاً ’’بالِ جبریل‘‘ کے جاپانی زبان میں ترجمے پر ’’جاپان سوسائٹی آف ٹرانسلیٹرز‘‘ نے 2011ء میں ’’اسپیشل ٹرانسلیشن ایوارڈ‘‘ عطا کیا۔
گرچہ ابتدا میں پروفیسر کتائو کانے اردو افسانوں کے تراجم میں بھی دل چسپی لی، لیکن اب وہ صرف اقبالیات کے لیے مخصوص ہو کر رہ گئے ہیں اور اسی بنا پر انہیں عالمی سطح پر ایک ممتاز مقام بھی حاصل ہے۔ پروفیسر کتائوکا کی پذیرائی کے سلسلے میں رواں برس 26اکتوبرکو ٹوکیو میں کُتب کی ایک نمایش منعقد کی گئی اور اس نمایش میں ’’جاوید نامہ‘‘ کا جاپانی ترجمہ ایک نمایاں کاوش کے طور پر پیش کیا گیا، جو نہ صرف پروفیسر کتائوکا بلکہ ہم پاکستانیوں کے لیے بھی کسی اعزاز سے کم نہیں۔