• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جافا، عرب و یہودیوں کی وسطی اسرائیل کو کشیدگی سے بچانے کی کوشش

جافا (اے ایف پی) تل ابیب کے تاریخی طور پر فلسطینی ضلع جافا میں رات کے وقت عرب اور یہودی کارکنوں کا ایک گروپ ہاتھوں میں پوسٹر اورگوندلےکر صلح کے پیغامات پھیلانے کے لیے نکل پڑتا ہے۔جافا کی سڑکوں پر لگے پوسٹروں میں تشدد اور نسل پرستی کے خلاف پیغامات تحریر ہیں، جس کا مقصد غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے مجاہدین کے درمیان گزشتہ ماہ شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنا ہے۔ وکیل عامر بدران نے کہاکہ یہ بہت معمولی اور بنیادی معلوم ہوتا ہے، لیکن آج کل کوئی بھی ان الفاظ کو سننا نہیں چاہتا۔انہوں نے کہا کہ یہودی اور عرب مخلوط آبادی کی مشترکہ سرگرمیوں کی وجہ سے ہمارے گروپ کو غدار قرار دیے جانے کا خطرہ ہے۔جافا، جو کبھی اکثریتی عرب شہر تھا، 1948 میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد جنگ کے نتیجے میں تل ابیب میں ضم کرلیا گیا تھا، اس جنگ کے دوران فلسطینی باشندوں کی اکثریت کو جبری طور پربے دخل یا غزہ جانے پر مجبور کردیا گیا تھا۔میونسپلٹی کے اعداد و شمار کے مطابق،اب عرب جفا کی آبادی کا 26 فیصد ہیں۔عامربدران اس سال اکتوبر کے آخر میں ہونے والےتل ابیب،جفا کے میئر کے انتخابات میں حصہ لینے والے پہلے عرب بن گئے لیکن جنگ کی وجہ سےانتخابات ملتوی ہو گئے۔حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے جافا میں زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ عثمانی دور کی پتھر کی عمارتوں میں موجود دکانوں سمیت وسطی جافاکی دکانیں بند ہو گئی ہیں۔عامربدران نے کہاکہ ہر کوئی گھر میں رہ رہا ہے۔یہودی اور عرب دونوں خوفزدہ ہیں۔جب موجودہ جنگ شروع ہوئی توسماجی کارکنوں نے امن برقرار رکھنے کے لیے مل کر ایک ہاٹ لائن قائم کی، جسے یہودی اسرائیلی دائیں بازو کی ریلیوں سمیت انتہائی کشیدگی کے وقت تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔اسرائیلی حکومت نے اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانےکا اعلان کیا ہے، لیکن بہت سے عربوں کو خدشہ ہے کہ شدید شکوک و شبہات کے ماحول میں بندوقیں ان کی طرف موڑی جا سکتی ہیں۔انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی اکثر سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتاریوں میں اضافے کی اطلاع دی ہے جسے اسرائیلی حکام نے دہشت گردی کی ترغیب سے تعبیر کیا ہے۔مزاحیہ اداکار غسان اشکر نے کہا کہ آن لائن مجھے غزہ کے بچوں کے لیے برا لگتا ہے، لکھنا خطرناک ہو گیا ہے۔ جافا کی سڑکوں پر نکلنے والےسماجی کارکنوں کے گروپ میں یہودی اسرائیلی بائیں بازو کے لوگ بھی شامل ہیں۔وہ اپنے معاشرے میں اس اقلیت کی نمائندگی کرتے ہیں ،جو غزہ میں فوری جنگ بندی کے مطالبات کی حمایت کرتی ہے، جہاں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں اکثریت بچوں، خواتین اور عام شہریوں کی ہے۔ 18 سالہ لیور فوگل نے کہا کہ میں اس دلیل کو مزید قبول نہیں کر سکتی کہ تمام عرب حماس کی طرح ہیں،انہوںنے اپنی برادری کو دلیل دی کہ ہر جگہ اچھے لوگ موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے لیے ماحول ناقابل برداشت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ بین الاقوامی بائیں بازو سے مایوس ہوچکی ہیں ۔لیورفوگل کو رواں ہفتے ملٹری سروس میں بھرتی کے لیے کال موصول ہوئی، جو کہ یہودی اسرائیلیوں کے لیے لازمی ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ وہ ہر ممکن چھوٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نفرت کے سمندر میں ایک قطرہ ہیں، لیکن اگر یہ قطرہ نہیں ہوگا تو کون کہے گا جو ہم کہنا چاہتے ہیں؟۔

دنیا بھر سے سے مزید