لاہور سیف سٹی کے کیمروں کی وساطت سے آج دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف آپریشن جاری ہے ۔ خیر یہ بھی ایک اچھی بات ہے مگر جس مقصد کیلئے اکبر ناصر نے اسے ڈیزائن کیا اور پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ وہ ان کے جانے بعد کہیں رہ گیا ہے۔ایک دن مجھے پولیس نےروک لیا، کہا کہ اس گاڑی کے بائیس چالان ہیں وہ آپ نے جمع کرانے ہیں ۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ پھر میں خود سیف سٹی گیا، وہاں اکبر ناصر سے ملاقات کی ۔وہ پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کے بانی چیف آپرٹینگ آفیسر تھے، انہوں نے حیران کن حد تک لاہور کی ٹریفک اور جرائم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ مجھے بالکل ویسے ہی لگا جیسے لاہور برطانیہ بن گیا ہو۔ دل بہت خوش ہوا۔ آج کل وہ اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل ہیں۔
پولیس سے تعلق رکھنے والے کچھ دوستوں سے ان کے متعلق بات کی تو انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر اکبر ناصر نے اسلام آباد کیپٹل پولیس کو نئی بلندیوں تک پہنچادیا ہے۔ معلوم ہوا کہ دارالحکومت کے مرکز میں، اس نے پولیس پبلک ریلیشنز برانچ قائم کی جو عوام اور پولیس درمیان ایک مضبوط مستحکم اور پُر اعتماد پل کی مثال ہے ۔ پانچ نئے پولیس ا سٹیشن قائم کیے۔ انہی کی بدولت، ایف سکس اور ایچ الیون کے عوامی سہولت مراکز شمسی روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ان کے وژن سے انڈور فائرنگ پریکٹس کلب سامنے آیا جہاں مہارتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اور پھر وہ آوازیں جو اکثر کھو جاتی تھیں انہیں محفوظ رکھنے کیلئے جی سیون مرکز میں ایک نیا ویمن پولیس اسٹیشن قائم کیا۔ا سپیشل پروٹیکشن یونٹ کا قیام عمل میں لائے جو خطرات کے خلاف ایک ڈھال کی طرح ہے۔ ڈولفن ایمرجنسی رسپانس ٹائم 8 سے کم ہو کر 4 منٹ تک پہنچ گیا۔ ان کی’’ایف آئی آر ایٹ ڈوراسٹیپ‘‘کی اختراع نے سہولت کے ایک نئے دور کا آغاز کیاہے۔ تنازعات کے حل کے متبادل مراکز کے قیام سے انصاف، متلاشی افراد کی دہلیز تک پہنچا۔ آئی سی ٹی پولیس میں ’’سون زون‘‘ ڈویژن کا آغاز اس کی اسٹرٹیجک قابلیت کی علامت بنا۔900 نئے کیمرے پورے شہر میں لگا ئے گئے۔ سیف سٹی اسلام آباد میں ڈیٹا پروٹیکشن اور پرائیویسی کے طریقہ کارکو متعارف کرایا۔ سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت ایل ٹی ای کے 21 ٹیلی کمیونیکیشن ٹاورز چالو ہوئے۔ انکاایک اور اہم قدم پاکستان کی پہلی پولیس ایمرجنسی رسپانس یونٹ (PERU) ایپلی کیشن ہے، جس سے شہریوں کو موبائل فون پر چلتی ان کی انگلیوں کی رفتار کے ساتھ مدد مل رہی ہے۔ ای چالان سسٹم نے، ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر نظر یں مرکوز کرلیں ،یعنی محفوظ سڑکوں کا دور شروع ہوا۔ ون ونڈو آپریشن کے توسط سے بین الاقوامی ڈرائیونگ لائسنس متعارف کرایا۔ کیپٹل انویسٹی گیشن برانچ کی تنظیم نو کی۔ کورٹ کمپلائنس یونٹ کے قیام کے ذریعے فوجداری انصاف کی ہموار ہوئی ۔ عدالتوں کے سامنے زیر سماعت قیدیوں کی الیکٹرانک پیشی کابندوبست کیا۔ خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے اہم تھانوں میں خواتین تفتیشی افسروں کی تعیناتی ہوئی۔ 1751 نئے کانسٹیبل بھرتی کیے گئے ۔ آئی سی ٹی پولیس کے تحت یوتھ انٹرن شپ پروگرام شروع کیا گیا۔ اقلیتی تحفظ یونٹ کا قیام عمل میں آیا۔کیپٹل پولیس کالج میں تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کو عروج ملا۔
میں جب ان کی اچیومنٹ لکھتے لکھتے تھک گیا تو پتہ چلا ابھی اتنی اور بھی ہیں۔میں نے سوچاکہ ان کیلئے تو کالم کی بجائے کتاب لکھنا پڑے گی ۔بے شک وہ بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں۔انہوں نے یونیورسٹی آف پورٹسماؤتھ، برطانیہ سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ڈاکٹریٹ، ہارورڈ کینیڈی اسکول سے ایم پی اے، یونیورسٹی آف لندن سے ایل ایل ایم، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے سول انجینئرنگ اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے آرٹس میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔انٹر نیشنل میگزینزمیں ان کے کئی تحقیقی مقالے شائع ہوئے۔ان کی دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں جنہیں بڑی پذیرائی ملی ۔میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ چند ماہ کیلئے میانوالی ڈی پی او تعینات ہوئے تھے۔
اور آخری بات کہ ڈاکٹر اکبر ناصر کے بھائی ڈاکٹر اشفاق ناصر بڑے اچھے شاعر ہیں ۔ ان کا مجموعہ آخر کار شائع ہوا ہے ۔ اس کی انہیں مبارک باد۔ان کا ایک شعر
جا تجھے تیرے حوالے کردیا
کھینچ لے یہ ہاتھ پھیلایا ہوا