• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاول بھٹو زرداری ایک خوبصورت نوجوان ہے اس کا تعلق شہیدوں کے خاندان سے ہے ۔ پی ٹی آئی کے گالی گلوچ بریگیڈ نے اس پر بلو دی بیلف دشنام طرازی کی حد کی ہوئی ہے۔ مگر اس وقت وہ اس فتنہ بردار گروپ کونظر انداز کرتا نظر آتا ہے اورالیکشن کے بعد وزیر اعظم پاکستان بننے کی پیش گوئی کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بطور وزیر خارجہ اس کی کارکردگی بری نہیں تھی۔ یہ بھی وہ کہہ رہا ہے کہ بزرگوں نے سب عہدوں پر رہ کر اپنا شوق پورا اور ترقی کا عمل ادھورا چھوڑ دیا ،اب قیادت نوجوانوں کے سپرد ہونی چاہئے ۔میں نوجوان ہوں چنانچہ وزیر اعظم کی مسند پر مجھے بیٹھنا ہے۔ بلاول کو چاہئے کہ وہ اس دلیل کا سہارا نہ لےکہ حفیظ جالندھری نے بڑھاپے میں کہا تھا

ابھی تو میں جوان ہوں

سو اس وقت بہت سے نوجوان میدان عمل میں ہیں قیامت کی گھڑی ہے اور آواز آ رہی ہے ’’پیش کرنا اگر کوئی عمل دفتر میں ہے ‘‘ اور امیدواران دفتر کے دفتر بغل میں لئے پھر رہے ہیں اور اگر خالص جوانوں کی بات کریں تو مسلم لیگ (ن) میں ایک سے ایک نوجوان پڑا ہے بلکہ پی ٹی آئی میں تو نابالغ ہی قطار اندر قطار کھڑے ہیں اور پہلی صف میں ان کے چیئرمین کھڑے ہیں۔

پی ٹی آئی نے بلاول کے خلاف جو نازیبا مہم چلا رکھی ہے ۔اب بلاول کو جواب آں غزل کے طور پر چیلنج کرنا چاہئے کہ جو مجھے ایسا بلکہ ایسا ویسا سمجھتا ہے وہ آکر مجھے ملے انشااللّٰہ اس کی تسلی کردوں گا ۔بات صرف بلاول کی نہیں ان کی پارٹی اس وقت بہت منفرد قسم کے بیان دے رہی ہے اس کا موقف یہ ہے کہ پارٹی نے ہمیشہ غریب عوام کے مسائل کے حل کےلئے بھرپور کام کیا ہے ۔چنانچہ انہیں اس بار اگر خدمت کا موقع دیا جائے تو وہ ملک و قوم کو درپیش سارے مسائل حل کر دیں گے۔ پارٹی خدمت کا موقع ملنے کی جو استدعا کر رہی ہے اس کا مخاطب کوئی اور ہے پارٹی اس خوش فہمی میں نہیں تھی کہ ہما ان کے سر پر بیٹھے ہی والا ہے مگر وہ ’’ہما شما‘‘ کے سر پر نہیں بیٹھتا بلکہ اس کا استاد اسے ہر اونچ نیچ سے آگاہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے جائو جس کے سر پر بیٹھنا ہے بیٹھ جائو تاہم اسے لوکیشن بھی سینڈ کی جاتی ہے اور یوں وہ بآسانی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے تاہم مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ منزل مقصودپر مقصود کیارہتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ اس طرح میں اس سلیم کو بھی نہیں جانتا جس کے عوام سے ’’عقل سلیم‘‘ کی بات کی جاتی ہے ۔کسی صاحب کو ان دو خوش قسمتوں کا اتا پتا معلوم ہو تو براہ کرم مجھ سے شیئر کریں ۔

اور ہاں بلاول بھٹو زرداری ان دنوں مسلم لیگ (ن) سے کہہ رہے ہیں کہ تم بلوچستان میں کیوں آ جا رہے ہو پنجاب میں رہو حالانکہ عشاق کا پیر تو محبوب کی گلی میں رہتا ہے اور آنے بہانےرہتاہے بقول میر تقی میر؎

تیرے کوچے میںاس بہانے میرا دن سے رات کرنا

کبھی اس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا

بلاول سے درخواست ہے کہ وہ پاکستان کے کسی بھی علاقے میں مسلم لیگ کے لئے دفعہ 144کے ’’اصول و ضوابط‘‘ لاگو نہ کریں بلکہ اب وہ سندھ کی طرف بھی توجہ دیں کہ نواز شریف ادھر کا رخ بھی کچھ کر چکا ہے اور باقی اس کے پروگرام میں شامل ہے۔پاکستان کے اس صف اول کے نڈر اور بااصول سیاست دان نے پاکستان کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں جانا ہے کہ عوام اس سے بہت امیدیں باندھے ہوئے ہیں ۔

میں یوٹیوبر نہیں ہوں کہ ’’تہلکہ خیز‘‘ خبروں کا دعویٰ کرکے جو پیش گوئی کر دی وہ ٹائیں ٹائیں فش ثابت ہو۔ میں اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ نواز شریف کسی بھی دور میں لاڈلہ نہیں رہا ان دنوں صرف اس کے ساتھ ہونے والی عدالتی زیادتیوں کی تلافی نئے عدالتی نظام کے نتیجے میں ہوتی نظر آ رہی ہے اب قانون دان اور سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ جان چکے ہیں کہ انہیں کبھی اقامہ ، کبھی بیٹے سے تنخواہ نہ لینے اور کبھی طیارہ ہائی جیک کرنے کے مضحکہ خیز الزامات میں سزائیں سنائی گئیں ۔اگرکرپشن کا کوئی سرا تھا تو ان مضحکہ خیز الزامات کی ضرورت نہیں پڑنا تھی۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والا ہے ۔

آخر میں ایک دفعہ پھر بلاول بھٹو زرداری سے کہ ٹھنڈا کرکے کھائو ابھی آپ کی عمر پڑی ہے ۔آپ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی ذہانت اور قربانیوں کے وارث ہیں ۔وقت آنے پر اور اس درمیانی وقفے میں آپ کی صلاحیتوں اور کارکردگی کے حوالے حق بہ حقدار کا اصول ضرور کارفرما ہو گا آپ کو کندن بننے کیلئے ابھی مزید ریاضت کی ضرورت ہے، آپ کے سیاسی کیریئر اور صلاحیت کے پیش نظر ’’ست ماہی ‘‘ کی نہیں سالم او رصحت مند نتیجہ کا انتظار کرنا چاہئے ۔

تازہ ترین