• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 انسانی تاریخ میںاتنے معصوم بچوں کو کبھی ہلاک نہیں کیا گیا، جتنے بچے17اکتوبر2023ءکے اسرائیلی حملے کے بعد غزہ میں شہیدہوئے اورہورہے ہیں۔ پھول جیسے بچوں کے چہروں کو آسمان سے بارود برسا کر کملایا جا رہا ہے۔ جلاد اسرائیلیوں کو بالکل ترس نہیں آ رہا وہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے ہیں اور پوری دنیا کے حکمران خاموش ہیں۔ عوام سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں مگر دور جدید کا ہلاکونتن یا ہو فلسطینیوں پر بم برسا رہا ہے اور ان کا پانی و خوراک بند کر کے ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ دنیا کا ہر ذی شعور اور حساس انسان اس ظلم اور بربریت کی بھر پور مذمت کر رہا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے بھی اس معاملے پر محض لب کشائی کو ترجیح دی۔ عرب لیگ کے قاہرہ میں ہونیوالے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔ یوں لگا جیسے وزرائے خارجہ کو فلسطینی مسلمانوں کا خون اور بچوں کی لاشوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ عرب ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر کے اسرائیل کو جنگ بند کرنے پر مجبور کر سکتے تھے مگر انہوں نے غزہ اور اسرائیل میں سویلین آبادی کے قتل عام کی مذمت کرنے پر اکتفاء کیا۔ او آئی سی کے اجلاس میں بھی کوئی قابل عمل اقدام نہ کیا جا سکا۔ ایران نے اسرائیل کے بائیکاٹ اور تیل کی سپلائی بند کرنے کی تجویز دی مگر منظور نہ ہوئی۔ عرب ممالک کے پاس تیل کا ہتھیار سب سے زیادہ مؤثر ہے مگر انکے پاس اسےاستعمال کرنے کی جرات نہیں۔ فلسطینیوں کے بہیمانہ قتل عام پر امریکہ اور اسرائیل کے یہودیوں میں بھی اضطراب پیدا ہوا اور انہوں نے غزہ میں اسرائیلی بمباری کے خلاف مظاہرے کیے، یہودی برائے امن نامی تنظیم کے تحت نیتن یاہو کی شدید مذمت ہوئی۔ اسرائیل میں یہودی تنظیموں نے دو ریاستی تجویز کی حمایت میں آواز اُٹھائی۔ امریکہ میں بھی اس کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس اور ڈیسٹرائٹ میں ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد کی شرکت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ عوام غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں مگر حکمران اسرائیل کو سپورٹ کررہے ہیں۔ ’’آواز برائے عوام‘‘ نامی یہودی تنظیم کے تحت امریکہ میں ہونیوالے بڑے مظاہرے میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔ چلی، بولیویا نے اسرائیل کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیئے، برازیل کے صدر نے اسرائیلی حملے کیخلاف سخت الفاظ میں احتجاج کیا ہے مگر اسلامی ممالک کے حکمران خاموش تماشائی بنے رہے صرف اردن نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلایا اور اسرائیلی سفیر کو بھی اپنے ملک نہ آنے کا کہا۔ امریکہ کے زیر اثر سفارتی تعلقات قائم کرنے والے مسلم ممالک کو امریکہ نے مختلف ترغیبات دی ہوئی ہیں جن کے حصول کے انتظار میں یہ خاموش ہیں۔ اسرائیل کے غزہ میں ظلم کی نشاندہی کو روکنے کیلئے نیتن یاہو نے تمام اخلاقی قدریں پامال کر دیں۔ عورتوں اور بچوں کا یہ سفاک قاتل غزہ میں نت نئے طریقوں سے قتل عام کر رہا ہے۔ جدید دور کا یہ ہلاکو غزہ میں فاسفورس بم بھی استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل نے چند دنوں میں غزہ پر اتنے بم برسائے جتنے امریکہ نے اپنے تیرہ سالہ دور میں افغانستان میں نہیں برسائے اب اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اپنے ناجائز بچے اسرائیل کا کیوں دفاع کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے اسلحہ سازی کے کارخانے دھڑا دھڑ اسلحہ اور بم بنا کراسرائیل کو دے رہے اور خوب پیسہ کما رہے ہیں۔ امریکی صدر خود جاکر نیتن یا ہو کو تھپکی دیتا ہے اور اس کے بعد برطانیہ، فرانس جرمنی وغیرہ کے سربراہان اسرائیل جا کر اس سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ اسرائیل اپنے مظالم کا بلیک آئوٹ کرنے کیلئے صحافیوں اور غزہ میں موجود میڈیا ہائوسز پر براہ راست بمباری کر رہا ہے۔ الجزیرہ کے بیورو چیف کی تمام فیملی کو قتل کر دیا گیا، انہیں براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ اب تک اسرائیل بیسیوں صحافیوں، میڈیا ورکرز، یونیسف اور یوا ین او کے کارکنوں کو قتل کر چکا ہے۔ مغربی ممالک اور مسلم ممالک کے حکمرانوں کی آنکھیں کب کھلیں گی؟ کیا اس وقت، جب جدید دور کا ہلاکو نیتن یاہو غزہ میں بچوں، عورتوں اور مردوں کے سروں کا مینار بنا دے گا؟

تازہ ترین