لندن (پی اے) ایک نئے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم آمدنی والے ملازمتوں میں معذوری کے شکار لوگوں کا تناسب زیادہ ہے۔ تجزیئے کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں ہر ساتواں کیئر ورکر اور ہوم کیئرر کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہے، اسی طرح ہر چھٹا رئیل کیشئر اور چیک آئوٹ آپریٹر، کال سینٹر میں کام کرنے والوں اور کراسنگ پٹرول افسران میں بھی معذوری کے شکار لوگوں کا تناسب کم و بیش یہی ہے۔ لیو نارڈ چیشائر آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ حکومت کو بینی فٹ میں کٹوتی کرنے کے بجائے معذوروں کو سپورٹ فراہم کرنا چاہئے، دستیاب ڈیٹا کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں کیئر اسکورٹ کے فرائض انجام دینے والے کم و بیش208 فیصد افراد نے بتایا کہ وہ کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں، کیئر ورکرز اور ہوم کیئررز میں یہ شرح14.6فیصد اور ریئل کیئرز اور چیک آئوٹ آپریٹرز میں یہ شرح 15.9فیصد ہے۔ لیو نارڈ چیشائر معذووری کے شکار لوگوں کو زندگی گزارنے کی راہ میں درپیش مشکلات ختم کرنا چاہتی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ان لوگوں میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو زیادہ تنخواہوں کے مستحق ہیں۔ نارتھ یارکشائر کی ایک جی پی رجسٹرار ڈاکٹر حنا برہم برائون کا کہنا ہے کہ یہ بات مایوس کن ہے لیکن کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ان کے جیسے پیشے میں معذوروں کی نمائندگی کی شرح نسبتاً کم ہے۔ لیو نارڈ چیشائر کے ایمپلائمنٹ پروگرام کے سربراہ کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تنخواہوں والے پیشوں اور ملازمتوں میں معذوروں کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے کم ہے اور وہ کم آمدنی والی ملازمتیں کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تنظیم کو اپنی ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم و بیش20فیصد آجر معذور امیدواروں کو ملازمت پر رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ چانسلر جیریمی ہنٹ کا کہنا ہے کہ کام کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے اصول کے تحت یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی فرد کی معذوری اس کے کام میں کسی حد تک رکاوٹ بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اصول میں زیادہ لچک پیدا کرنے کیلئے اس نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔