ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ سامنے اسٹیج پر صحافی بیٹھے تھے۔ وہ جو بول رہے تھے۔ وہ سچ تھا۔ ایسا سچ جو ساری دنیا بولتی ہے مگر دیکھتی صرف الجزیرہ پر، کہ انکے کئی رپورٹرز مع خاندان کےمروا دئیے گئے۔60کے قریب صحافی مارے گئے مگر۔ بات کرتے رک جاتے ، پھر بولنے لگتے، جب انہوں نے کہا ہم فلسطین کی خبریں اس قدر لکھ سکتے ہیں جو الجزیرہ سے ملیں کہ ہمارا کوئی صحافی نمائندہ مقرر نہیں ہے۔ بقیہ دنیا کے صحافی اپنے ملک کی سیاست سے مطابقت رکھتی خبریں بھجواتے ہیں۔ ہم لوگ بھی جس قدرخبر ملتی ہے، وہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں کسی نے بتایا(سرکاری طورپر) کہ شام اور یاسر عرفات کیوں بھلا دئیے گئے۔اوسلو معاہدہ کیوں رائیگاں گیا۔ یہ بھی عوام کونہیں معلوم کہ حماس کون ہے اور اسوقت جنکو صدر فلسطین کہا جارہا ہے۔ وہ کس کے نمائندے ہیں کہ انکو سرکاری طور پر ملتے ہوئے دکھایا جارہا ہے۔ صحافیوں نے مزید کہا کہ غزہ کے بار ے میں خبر دینے پر کوئی پابندی نہیں۔ البتہ پاکستان کی اصلی خبریں نہیں دے سکتے بالکل اس طرح جیسے عمران کی عدالت میں پیشی کی کھلے عام کیلئے کہی گئی تھیں۔ مگر رات گئی، بات گئی۔
یہ سنجیدہ اور بھرپور سیشن، کراچی آرٹس کونسل کی سولہویں اردو کانفرنس میں ایک موضوع تھا۔ پھر تو ہر موضوع بھرپور ایسا رہا کہ اسکولوں کے بچے کبھی سمجھ کر اور کبھی ناسمجھی میں شعر سن کر تالیاں بجاتے رہے۔ ادیبوں کی کانفرنس میںادیب تواپنے اپنے مقالے اور گفتگو یا شعر سنانے آتے ہیں۔ باقی ہال کوبھرنے کیلئے اول اور دوم یہ کہ ان کی تعلیم شعر وادب کے حوالے سے بھی ہو۔ یہ کوشش کامیاب اس طرح بھی ہوئی کہ سارے چاروں دن نوجوان بڑی والہانہ محبت سے نہ صرف شامل رہے بلکہ ایک کام جس سے الجھن بھی ہورہی تھی۔ وہ تھا سیلفی اتارنا جو دن رات کی تخصیص کے بغیر چاروں دن جاری رہا۔ابھی ماحول پہ غزہ کا دکھ قائم تھا کہ موضوع سامنے آیا ’’ مسلمان لاپتہ ہوگئے ہم سب سمجھے کہ پاکستان اور خاص کر بلوچستان میں75 سال میں ہزاروں لاپتہ ہونے والوں کا قصہ ہوگا۔ چند منٹ بعد دلی سے سعید نقوی صاحب جوپرانے صحافی اور ہمارے دوست ہیں، نظر آئے ، ہال پھر بھر گیا۔ پتہ چلا کہ اس وقت انڈیا میں جس طرح مسلمان غائب کیے، مروائے اور بلاجرم، جیل میں بٹھاکر بھول گئے کہ یہ کس لئے اندر ہیں۔ انکے بارے میں سعید نقوی صاحب نے ڈرامہ لکھا تھا جو وہاں اسٹیج بھی ہوا، اسکا اردو ترجمہ عرفان عزیز نے کیا تھا۔ اس پر ایک گھنٹہ سعید بھائی کے ساتھ سہیل وڑائچ اور وسعت اللہ خان نے بات کی اور مظہر عباس نے نظامت کی۔گزشتہ 8برس سے جو کچھ مودی صاحب نے کیا، صرف مسلمان ہی نہیں،دلت اور نیچی ذات کے لوگوں پر وہ ستم ڈھائے گئےکہ انڈیا کی تاریخ کا تاریک ترین دورشمار ہوگا۔ مگر تاریخ نے تو ہمیں چنگیز خاں اور ہٹلر کو فراموش نہیں کرنے دیا، ہر چند مودی صاحب اپنی سی بے عقلی کرکے مغلوں اور مسلمانوں کو اقلیت بناکے ہی دم لیتے نظر آرہے ہیں۔ قوم ابھی بھی تازہ انتخابات میں انکے شکنجے سے ذرا سی باہر آئی ہے۔ ابھی تو بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
چار روزہ کا نفرنس میں ایک بہت بڑی تبدیلی پی ٹی آئی والی تبدیلی ہے۔ دائرہ ادب میں تبدیلی اور وسعت یعنی تمام صوبوں کے مشاہیر پر علیحدہ علیحدہ سیشن ہوئے۔ ساری زبانوں کے شعر اور تصانیف کے بارے میں نوجوانوں کی دلچسپی اس طرح تھی جیسی سیلفی اتارنے میں۔ یہ الگ بات کہ کلاسیک پر بات نہیں بلکہ ایسی صدی کے ساتھ گزشتہ صدی کو ملا کر وہ مصنفین جنکو ہم کب بھلا سکے ہیں مثلاً منیر نیازی اور استاد دامن۔
سب دنوں نہیں دوشاموں کو آدھی رات تک پھیلا کرمشاعرے ہوئے اور مجھے بار بار یاد آتا رہا کہ جوقومیں آدھی آدھی رات تک جاگتی ہیں۔یہی مشاعرے7بجے سے9بجے تک بھی ہوسکتے تھے۔ رہا گورنر کا انتظار وہ ہماری لغت میں بے معنی تھا۔
البتہ بامعنی، نگراںچیف منسٹر صاحب کا اعلان، محض کاغذی اعلان نہیں رہا اور2دسمبر کو واقعی احمد شاہ صاحب نے بطور وزیر حلف اٹھایا۔ ادیبوں نے سیاسی ورکروں کی طرح مٹھائی نہیں بانٹی بلکہ یہ دعا دی کہ تم نے جیسے آرٹس کونسل کو واقعی ادبی تہذیبی مرکز بنایا ہے۔ اس طرح اس عارضی حکومت میں بھی اپنا نام روشن کرکے جائو گے مثلاً ابھی تک انگریز کا قانون، ادبی مجالس کیلئے ڈپٹی کمشنر کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔ہم لوگوں نے پاکستان میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں میں،اس بے معنی قانون کو حذف کرنے کی قراردادیں پاس کی ہیں۔اللہ کرے احمد شاہ صاحب اس قانون کو حرف غلط کی طرح قطعی منسوخ کرنے والے اور وفاقی حکومت کو بھی یہ تحریک دیکر جائینگے اور آنے والے دنوں میں عورت مارچ یا امن مارچ کیلئے کسی سرکاری اجازت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی۔
ہرچند یہ کہا جارہا ہے کہ نگراں بس الیکشن کیلئے آئے ہیںمگر کروڑوں ، اربوں ڈالر کے معاہدے /ریٹائرڈ ججوں اور جرنیلوں کو اہم محکموں میں لگایا جانا اور وہ بھی اس اعلان کے ساتھ کہ یہ تین سال تک رہیں گے۔ یہ حق نگران حکومت کو نہیں ہونا چاہیے۔ سیاسی پارٹیوں میں الیکشن کے نام پر جو تماشہ دکھا رہے ہیں۔ وہ کھل جائیگا اگر ۔یہ بہت ضروری ہے کہ اگر نوجوانوں کو خرید کرنہیں باقاعدہ الیکشن کے ذریعہ، نیا سیاسی منظر نامہ بنایا گیا تو آگے بڑھا جائیگا کیونکہ چالیس برس میں موجود خود ساختہ رہنمائوں کی آنیاں اور جانیاں بہت دیکھ لیں۔ ویسے بھی بہار کے موسم میں خزاں رسیدہ پودوں پر پھول نہیں کھلتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)