حیدر آباد دکّن کی مملکتِ آصفیہ اپنی تاریخ و تہذیب، رِجال و معاشرت اور علمی و ادبی خدمات کے اعتبار سے پورے جنوبی ایشیا میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی۔ مملکت سے تعلق رکھنے والے باذوق مؤرخین و مصنّفین نے اس خطّے کی ہر نوع کی تاریخ لکھنے میں کبھی بُخل سے کام نہیں لیا اور ہر متعلقہ موضوع پر سوانح عُمریاں اور سوانحی تذکرے مرتّب کیے۔
نیز، زندگی و معاشرت کے ضمن میں اس قدر بڑے پیمانے پر تحریر و تالیف کا کام کیا کہ شاید ہی تاریخ و تہذیب کا کوئی موضوع، گوشہ یا پہلو تشنہ رہ گیا ہو۔ علاوہ ازیں، خطّے سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ تمام اکابرین، حُکم رانوں، سیاسی رہنمائوں، علما، مصنّفین، شعراء اور دانش وَروں کی سوانحات اور اُن کی خدمات کا احاطہ مختلف تصانیف اور مقالات میں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس خطّے سے متعلق ہر موضوع پر کُتب اور مخطوطات کی ایک بڑی تعداد دُنیا بَھر کے کُتب خانوں میں موجود ہے۔
یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ مملکتِ آصفیہ کے آخری ایّام میں بھی تحقیق، تصنیف اور تالیف کا یہ سلسلہ زور و شور سے جاری رہا اور مملکت کے اختتام اور بچے کھچے اکابرین، مصنّفین اور دانش وَروں کے اس دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد ان کی تربیت یافتہ نسلیں ابھی تک اپنے اجداد کی قائم کردہ روایات پر عمل پیرا ہیں۔
حیدر آباد، دکّن کی تاریخ میں کوئی ایسا دَور نہیں گزرا کہ جب یہاں کے باشندے اپنی ان مسلّمہ روایات پر کاربند نہ رہے ہوں اور دُکانیں متعلقہ زمروں پر مشتمل مطبوعات سے خالی نظر آئی ہوں۔ مملکتِ آصفیہ نے اپنے دَور میں فارسی اور عربی کے علاوہ اردو زبان و ادب کو بھی مثالی فروغ دیا اور حیرت انگیز طور پر آج بھی حیدر آباد دکّن میں اردو زبان کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے اور نہ ہی اس زبان میں درس و تدریس زوال پذیر ہے بلکہ اس کے برعکس اردو ذریعۂ تعلیم پر مشتمل اداروں میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے اور اردو ادب و صحافت بھی دن دُگنی، رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔
عصرِ حاضر میں حیدر آباد، دکّن میں اردو زبان کے فروغ کا ایک جزوی مظہر حال ہی میں شایع ہونے والی منفرد تصنیف، ’’دکّن کی ایک غیر مطبوعہ تاریخ‘‘ بھی ہے۔ اپنی نوعیت کی اس یکتا و مفید کتاب کے مصنّف، قاضی محمد بدر الدّین حسین عرف سعید الدّین خاں (متوفی 1927ء) ہیں۔ کتاب کے تازہ متن کے مُدیر، قاضی مظہر الدّین طارق ہیں۔ اس نادر نُسخے کو قابلِ قدر اہتمام کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔
مذکورہ تصنیف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ غیر مطبوعہ حالت میں حیدرا ٓباد دکّن میں واقع، ’’ادارۂ ادبیات اردو‘‘ کے سربراہ اور بیش بہا کُتب کے مصنّف، ڈاکٹر محی الدّین قادری زور کے زیرِ مطالعہ رہی ہے، جنہوں نے اسے حیدر آباد دکّن کی تاریخ و تہذیب کا ایک اہم ماخذ قرار دیا ہے اور بلاشُبہ اس کتاب میں شہر کے بعض علاقوں اور مقامات کا اس انداز سے ذکر کیا گیا ہے، جو تاریخ کی دیگر کُتب میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔
کتاب کے مصنّف کے خاندان کا تعلق مملکتِ آصفیہ کے ایک تاریخی شہر، اودگیر سے تھا، جو کسی دَور میں مرہٹّوں کا دارالحکومت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں مرہٹہ سلطنت کے علاوہ اسلامی تہذیب کے آثار بھی موجود ہیں۔ راقم الحروف کی جائے پیدایش بھی یہی شہر ہے اور یہاں گزرے بچپن کی یادیں اب تک حافظےمیں تازہ ہیں۔ اپریل 1984ء میں جب راقم الحروف کو ’’بین الاقوامی اقبال کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے کراچی سے حیدر آباد دکّن جانے کا موقع ملا، تو اس موقعے پر گلبرگہ، بیدر، اورنگ آباد اور اودگیر کی زیارت کی سعادت بھی حاصل کی ۔
’’دکّن کی ایک غیر مطبوعہ تاریخ‘‘ نامی کتاب میں جہاں مملکتِ آصفیہ کے دَور کی تاریخ کو جستہ جستہ پیش کیا گیا ہے، وہیں مصنّف کے خاندان کا مختصراً احوال بھی بیان کیا گیا ہے اور چُوں کہ یہ کتاب ذاتی اور خاندان کے اکابرین کی معلومات کی مدد سے مرتّب کی گئی ہے، لہٰذا اس کے مستند ہونے میں کوئی شک نہیں ۔
کتاب حیدر آباد دکّن کے تمام ادوار کی تہذیب و معاشرت نہایت مناسب انداز میں پیش کرتی ہے، لہٰذا یہ مملکتِ آصفیہ کی تہذیب و ثقافت کا ایک اہم ماخذ اور اس حوالے سے لکھی گئی تصانیف میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے۔ گرچہ یہ بہت ضخیم نہیں، لیکن اپنے مواد، موضوعات اور مختلف شخصیات سے متعلق بیان کردہ معلومات کے اعتبار سے نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں۔