• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس اور یوکرین کی جنگ کے بعد اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کی جنگ نے نہ صرف دنیا کے امن کو مزید خطرات سے دوچار کر دیا ہے بلکہ ان دونوں جنگوں کی وجہ سے عالمی معیشت اور سیاست کے منفی اثرات کی ہولناکی میں بھی اضافہ ہور ہا ہے۔ یہ اثرات فوری بھی ہیں اور دور رس بھی ۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ دونوں جنگیں عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں کسی بحران کی نشاندہی کر رہی ہیں ۔ یہ بحران اگرچہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا داخلی اور منطقی بحران ہے ، جو اکثر پیدا ہوتا رہتا ہے لیکن اس سے بچنےکیلئے وہ پوری دنیا کو ایک بڑے مصنوعی بحران میں دھکیل دیتا ہے ۔ اب بھی یہی کچھ نظر آ رہا ہے ۔ ہمارے خطے میں سب سے زیادہ پاکستان اس بحران سے متاثر ہو سکتا ہے ۔ بحران سے نمٹنے کیلئے جو مطلوبہ قیادت درکارہوتی ہے ، پاکستان میں وہ ہمیشہ کی طرح مفقود یا سیاسی طور پر غیر موثر ہے ۔ اس لیے ہمیشہ کی طرح ہر عالمی گریٹ گیم میں پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہوا ، خدشہ ہے کہ ویسا ہی ہو گا۔

مذکورہ بالا دونوں جنگوں میں ہم نے ایک نئی بات دیکھی ۔ تمام تر عالمی کوششوں کے باوجود دونوں جنگیں رکوائی یا بند نہیں کرائی جا سکیں ۔ روس بھی اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول تک جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے اور اسرائیل بھی فلسطین سےحماس کے مکمل صفایا کرنے تک جنگ نہیں روکنا چاہتا ۔ یوکرین روس جنگ بظاہر روس نے شروع کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جنگ امریکہ اور اس کے اتحادی اس پر پہلے ہی مسلط کر چکے تھے ۔ اگر روس ایسا نہ کرتا تو امریکہ اور اس کے دفاعی اتحادی ممالک ( نیٹو ) روس کا مکمل گھیراو کر چکے تھے اور اس کے دوبارہ بڑھتے ہوئے عالمی کردار اور اس کی مضبوط ہوتی معیشت کو بڑا نقصان پہنچاتے تاکہ دنیا میں ہونے والی نئی عالمی صف بندی کو روکا جا سکے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کے پڑوسی اور انتہائی خوش حال ملک یوکرین میں اپنے فوجی اڈے بنالئے ۔ یہیں سے یوکرین کی تباہی کا آغاز ہوا اور دنیا کو گندم ، دیگر اجناس ، دھاتیںاور معدنیات برآمد کرنے والا امیر ترین ملک اب 60ارب ڈالر امریکی پیکیج کے انتظار میں مزید تباہ ہو رہا ہے ۔ یوکرین کا روس کے ساتھ ایک علاقائی تنازع تھا ، جس کا امریکہ اور یورپ نے فائدہ اٹھایا۔

اسرائیل اور حماس کی جنگ بھی بظاہر حماس نے شروع کی لیکن حالات کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ جنگ وقت اور حالات کے اعتبار سے عالمی سرمایہ دارقوتوں کے حق میں ہے ، جو دنیا کو نئے بحران میں لپیٹ کر اپنی بقاء کا سامان پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔ حماس کی تنظیم دانستہ یا نادانستہ طور پر اس ’’ ٹریپ ‘‘ ( جال ) میں آئی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف شہری آبادیوں کا نقصان ہو رہا ہے ۔ خواتین ، بچوں ، بوڑھوں ، جوانوں کو آسمان سے گرتے بموں سے بچانے میں عالمی برادری ناکام ہو چکی ہے ۔ امریکہ نے تو حد کر دی ۔ اس نے جنگ بندی سے متعلق امریکی قرار داد کو ہی ویٹو کر دیا ہے ۔ وہ اسرائیل کی وحشیانہ جنگی سرگرمیوں کی کھل کر حمایت کر رہا ہے ۔ اس جنگ کا ہدف صرف حماس کا مکمل خاتمہ کرنا نہیں بلکہ اسکے اہداف بہت بڑے ہیں۔ دونوں جنگیں تیسری عالمی جنگ کا فلیش پوائنٹ ہیں لیکن سرد جنگ کے عہد کی طرح ’’ نظریاتی تصادم ‘‘ جیسے جذباتی نعروں کو جنگ بھڑکانے کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور عالمی سطح پر دفاعی طاقت میں عدم توازن بھی ایسا نہیں ہے کہ دیوانگی میں سب عالمی جنگ میں کود پڑیں یا انہیں دھکیل دیا جائے ۔ لہٰذا نئی عالمی جنگ معیشت کے میدان میں ہونے والی ہے اور اس کی تیاری ہو چکی ہے ۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء چونکہ لوٹ مار پر ہے ۔ لہٰذا وہ اندرونی بحرانوں کا شکار رہتا ہے ۔ وہ جنگیں بھی اپنے مفادات کیلئے کرتا ہے تاکہ مختلف خطوں اور علاقوں کے قدرتی اور دیگر وسائل پر تصرف حاصل کر سکے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ طریقہ کار بدل گیا ہے ۔

ہمارے ہاں شاید اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا رہا کہ روس یوکرین جنگ میں یورپی یونین نے روس پر معاشی پابندیوں کے 21پیکیجز نافذ کیے تھے تاکہ روس کی معیشت کو کمزور کیا جا سکے اور وہ یوکرین کی جنگ لڑنے یا عالمی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے ۔ یورپی یونین کی ان پابندیوں کا نتیجہ الٹ پڑ ا اور یورپی ممالک اس وقت شدید معاشی بحرانوں کا شکار ہے ۔ روس سے انہیں گیس اور تیل سستے داموں مل رہے تھے ۔ یورپ نے متبادل انتظام تو کیا لیکن وہ مہنگا بھی ہے اور سپلائی کا نظام بھی غیر یقینی ہے ۔ اس وقت یورپ میں ’’ انرجی پرائسز ‘‘ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے اور مہنگائی کا طوفان برپا ہے ۔ کھانے پینے کی اشیاء تین گنا مہنگی ہو گئی ہیں ۔ یورپ کی معاشی نمو گھٹ گئی ہے ۔ پورے براعظم یورپ میں مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ۔ یورپ میں سیاسی زلزلوں کی زیر زمین ’’ فالٹ لائنز ‘‘ ایکٹو ہو چکی ہیں ۔ وہاں چونکہ جمہوریت ہے ۔ اس لیے انتخابات کے نتیجے میں حکومتوں کو گرتا ہوا دیکھا جا سکے گا لیکن عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، وہ اپنے مفادات کو بچانےکیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔

یوکرین روس جنگ اور فلسطین حماس جنگ کو ہمارے خطے خصوصا ًایران ، افغانستان اور پاکستان میں کسی بھی شکل میں منتقل کیا جا سکتا ہے اور اسکے بعد ہی کسی بڑے مصنوعی بحران سے وہ ان عالمی حالات کو کنٹرول کرنے کا کوئی نیا ورلڈ آرڈر بنائے گا ، جن حالات کی وجہ سے یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اس وقت حقیقی داخلی بحران کا شکار ہے ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان میں وقت پر انتخابات ہو جائیں ۔ ورنہ حالات ایسے ہیں ، جیسے افغانستان میں روس اور امریکہ جنگ سے پہلے پاکستان میں ایک فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو لایا گیا یا نائن الیون سے پہلے پاکستان میں ایک اور فوجی آمر پرویز مشرف کو لایا گیا ۔ جمہوری حکومت چاہے کتنی ہی کمزور ہو ، وہ پاکستان کو عالمی گریٹ گیم کا اس طرح حصہ نہیں بننے دے گی ، جس طرح دو آمرانہ حکومتوں نے پاکستان کو بنایا ۔ تمام سیاسی قوتیں انتخابات میں تاخیر والی مقدمے بازی سے گریز کریں اور انتخابات ہونے دیں، ورنہ پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔

تازہ ترین