25دسمبر کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ 1876ء میں اس روز ایک ایسے عظیم رہنما پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنی شبانہ و روز محنت اور فکر و حکمت سے برِصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستانی مسلمانوں کے دیرینہ خواب کو عملی تعبیر دیتے ہوئے وہ عظیم کارنامہ انجام دیا، جس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں ابتدا ہی سے یہ احساس جاگزیں تھا کہ وہ اس خطّے میں بسنے والی اکثریت یعنی ہندوئوں کے مقابلے میں قطعی طور پر ایک مختلف قوم اور اکثریت کے رحم و کرم پر ہیں، جس نے کبھی بھی ان کے لیے کُشادہ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔
بعد ازاں، مسلمانوں کا یہی احساس ’’دو قومی نظریے‘‘ میں ڈھل گیا، جو ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ یعنی جب ہندوستان کی سر زمین پر پہلا فرد مسلمان ہوا، تو یہاں ایک نئی قوم وجود میں آ گئی۔ یاد رہے کہ بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظم محمّد علی جناحؒ نے 8مارچ 1944ء کو مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان اُسی دن وجود میں آگیا تھا ،جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے، جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔
مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے،وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا، تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، بلکہ وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد بن گیا۔‘‘ بعد ازاں، یہ حقیقت وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتی رہی کہ دینِ اسلام اور ہندو دھرم صرف دو مختلف مذاہب ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ معاشرتی اور تہذیبی نظام ہیں۔ نام و نسب، روایات و اخلاقیات اور زبان و ادب سمیت ہر لحاظ سے مسلمانوں کا ایک انفرادی نقطۂ نظر اور نظریۂ حیات رہا ہے۔
مسلمانوں نے جنوبی ایشیا میں ہمیشہ کسی نہ کسی انداز میں اپنا منفرد سیاسی و تہذیبی وجود برقرار رکھنے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ بالآخر تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کی صُورت سامنے آیا۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ علیحدہ قومیت کے تصوّر ہی نے پاکستان کے قیام کو حقیقت سے ہم کنار کیا۔
تحریکِ پاکستان کے دوران جو عوامل کار فرما تھے، اُن میں سے پہلا یہ تھا کہ ہندو اور مسلمان ہر اعتبار سے دو علیحدہ اقوام ہیں اور ان دونوں میں مذہبی و تہذیبی اعتبار سے نمایاں فرق ہے۔ نیز، ان کے مقاصدِ حیات بھی علیحدہ ہیں، لہٰذا ایک اکثریتی قوم کے ساتھ مسلم اقلیت کا مستقبل متّحدہ ہندوستان میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔
دوسرا یہ کہ ماضی میں ہمیشہ مسلمانوں کو ہندوئوں کی طرف سے تلخ تجربات کا سامنا رہا ، اس لیے مسلمانوں کو ہندوستان میں مکمل اور یقینی تحفّظ حاصل ہونا چاہیے یا ہندوستان کی تقسیم ہونی چاہیے۔ اور تیسرا یہ کہ تقسیم کے بعد مسلمان اپنے زیرِ اقتدار علاقوں یا پاکستان میں اسلامی مملکت قائم کریں گے۔
پاکستان کا قیام دراصل مسلمانوں کی اُس ایک ہزار برس سے زاید طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس کے تحت وہ اس خطّے میں اپنی جدا گانہ حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ مسلمانوں کی اس انفرادیت کو مٹانے اور انہیں اپنے اندر ضم کرنے کی غرض سے ہندوئوں نے اُن پر مختلف محاذوں سے حملے کیے۔ ان میں سے ایک محاذ میدانِ جنگ تھا کہ ہندو اپنی تمام تر فوجی قوّت جمع کر کے اسے مسلمانوں کے مقابلے پر لے آتے تھے۔ محمّد بن قاسم سے احمد شاہ ابدالی تک جس کسی نے بھی ہندوستان میں اسلامی سلطنت کا آغاز یا احیا کیا، اُسے ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسرا محاذ سیاسی اور تہذیبی تھا۔ عملاً مسلمانوں کو ایک علیحدہ قوم تسلیم کرنے کے باوجود ہندو ان کی جدا گانہ حیثیت ماننے پر آمادہ نہ تھے۔ گرچہ سیاسی میدان میں بہ ظاہر ہندوؤں کی جانب سے ہمیشہ ’’ہندو، مسلم بھائی چارے‘‘ کا نعرہ لگایا گیا اور دونوں کو ایک ہی قوم ثابت کرنے میں سارا زور صَرف کر دیا گیا، لیکن درِ پردہ عمل اس کے برعکس رہا۔ اس منافقت کا مقصد صرف یہی تھا کہ اکثریت کے بل بوتے پر حکومت اور اختیارات ہندوئوں کے ہاتھ میں رہیں اور مسلمان ان کے محکوم بنے رہیں۔
ہندوؤں کے اس نفرت انگیز رویّے نے کبھی اردو زبان کی مخالفت کا رُوپ دھارا اور کبھی ’’گائو ماتا‘‘ کے تحفّظ کا۔ کسی نے مسلمانوں کو غیر مُلکی حملہ آور قرار دے کر عرب لوٹ جانے کا نعرہ لگایا، تو کسی نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اپنے مذہب، تاریخ، روایات اور تہذیب سمیت ہر شے کو ترک کر کے خود کو ہندو قومیت میں جذب کر لیں اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کا جُز بن جائیں۔
مسلمانوں نے ہندوئوں کے اس معاندانہ رویّے کا ہر موقعے پر پوری قوّت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ تاہم، یہ مسئلہ برطانوی دَورِ حکومت میں زیادہ شدّت اختیار کر گیا کہ انگریز، مسلمانوں سے ان کا اقتدار چھیننے کے بعد یہ ضروری سمجھتے تھے کہ مسلمان زوال کی انتہا کو پہنچ جائیں۔ اس کی وجہ محض یہ نہ تھی کہ مسلمان یہاں کے سابق حُکم راں تھے بلکہ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہندوستان کے مسلمان دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ دینی اُخوّت کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔
یہ رشتہ انگریزوں کے لیے زیادہ تشویش کا باعث اس لیے تھا کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کے حوالے سے بھی استعماری عزائم رکھتے تھے۔ چناں چہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ہندوستان میں مسلمان کبھی بھی ایک بڑی طاقت نہ بن سکیں۔ مسلمانوں کے سامنے ہندوئوں اور انگریزوں دونوں کے مشترکہ مقاصد پوری طرح عیاں تھے۔ وہ محض ہندوستان میں بسنے والی ایک قوم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک مسلم قوم کی شناخت کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
مسلمانوں نے ہندوؤں کے مصلحت آمیز عمل یا ’’ہندوتوا‘‘ کے مقابل اپنا قومی وجود برقرار رکھنے کے لیے متعدّد مرتبہ اپنا دفاع کیا۔ مسلمان علما و مجاہدین میں سے حضرت مجدّد الف ثانی ؒ( 1564-1624ء) نے مسلمانوں کے ملّی وجود کو غیر اقوام کے ساتھ اشتراک سے روکا۔ بعد ازاں، شاہ ولی ا للہ ؒ (1703-1762ء) نے اپنی تصانیف کے ذریعے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کی قومی حیثیت کو مزید تقویّت پہنچائی۔
اسی طرح سیّد احمد شہیدؒ (1786-1831ء) اور اُن کے رفقا نے ایک طویل عرصے تک دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد کیا، جو ان کے پیروئوں کے طفیل بیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہا۔ پھر 1857ء کی جنگِ آزادی میں بھی مسلمان ہی پیش پیش تھے، بلکہ یہ اُنہی کے دَم قدم سے شروع ہوئی تھی اور اُنہی کی تباہی پر منتج ہوئی۔
بعد ازاں، مسلمانوں نے اپنے اضطراب اور بے چینی پر مبنی اس مزاج کا اظہار اکثر مواقع پر مختلف تصوّراتِ آزادی بالخصوص ایک آزاد اسلامی مملکت کے تصوّر کی شکل میں کیا۔ یوں، فی الحقیقت مجدّد الف ثانیؒ سے لے کر قرار دادِ پاکستان اور پھر قراردادِ مقاصد کے متفقّہ طور پر منظور ہونے تک ایک ہی رویّہ اور ایک ہی نظریہ مختلف صورتوں اور مختلف تحاریک میں کار فرما رہا۔
مسلمانوں کی سیاست ان کے علماء اور مجاہدین کی کوششوں کے طفیل جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ہمیشہ ایک متوازی راستے پر چلی اور ان کے مخلص و دُور اندیش قائدین کی کوششوں کے سبب کبھی ہندو سیاست کے جال میں گرفتار نہ ہوئی۔ مسلمانوں نے اپنی ساری جدوجہد میں اسلام کے اس نظریے اور اس مزاج کا بار بار اظہار کیا کہ وہ غیروں کی غلامی کسی صورت قبول نہیں کر سکتے اور پاکستان کا قیام دراصل اسی مزاج اور نظریے کی عملی تعبیر ہے۔