’’سائنس فِکشن ‘‘ادب کی ایسی صنف کو کہا جاتا ہے، جس میں ناول، افسانہ یا ڈراما سائنسی تخیّلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ ادب کی اس صنف کی اہمیت سے آج تک دُنیا کے کسی نام وَر سائنس دان نے انکار نہیں کیا، بلکہ ان کے نزدیک سائنس فِکشن پر مبنی ادب در حقیقت سائنس میں دِل چسپی رکھنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
عصرِ حاضر میں زیرِ استعمال بہت سی اشیا کا تصوّر ان کی ایجاد سے دہائیوں قبل ہی بے شمار کہانیوں اور فلمز میں پیش کیا جا چُکا تھا۔ سائنس فِکشن کا ایک اہم موضوع، ماورائے زمین زندگی یا خلائی مخلوق (Aliens)کا وجودبھی ہے اور یہ موضوع کم از کم دو صدی پُرانا ہے۔ اس عرصے میں مذکورہ موضوع پر دُنیا کی تقریباً ہر زبان ہی میں بہت کچھ لکھا جا چُکا ہے اور خلائی مخلوق پر بنائی جانے والی فلمز، کہانی کی یک سانیت کے باوجود بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔
خلائی مخلوق کے خیالی تصوّر کو دُرست ثابت کرنے کے لیے ماہرینِ فلکیات عرصۂ دراز سے تگ و دَو کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام، جیمی موسان کا ہے، جو میکسیکو کے رہایشی اور پیشے کے اعتبار سے ایک صحافی ہیں۔ 70سالہ جیمی نے اپنی زندگی اُڑن طشتریوں اور خلائی مخلوق پر تحقیق کے لیے وقف کر رکھی ہے۔
جیمی نے چند ماہ قبل میکسیکو کی کانگریس کے سامنے دو حنوط شُدہ لاشیں پیش کیں، جو ان کے مطابق کسی انسان کی نہیں، بلکہ انسان نُما خلائی مخلوق کی ہیں۔جیمی کا دعویٰ ہے کہ یہ لاشیں اُنہیں پیرو کے قریب واقع اُس مقام سے ملیں، جہاں کم و بیش ایک ہزار برس قبل ایک اُڑن طشتری گر کر تباہ ہوئی تھی۔ ان میں سے ایک لاش مَرد اور دوسری عورت کی ہے۔ دونوں کا قد تقریباً3فِٹ، سَر لمبوترا، آنکھیں بڑی بڑی اور مخروطی اور تین، تین انگلیوں پر مشتمل ہاتھ ہیں۔
ذرایع ابلاغ میں شایع و نشر ہونے والی تصویروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لاشیں خیالی خلائی مخلوق سے بڑی حد تک مشابہت رکھتی ہیں۔ ابتدائی طور پر ان حنوط لاشوں کے تین ٹیسٹ کیے گئے۔ لاشوں کی قدامت کا اندازہ لگانے کے لیے انہیں کاربن 14کے تجربے سے گزارا گیا۔ یہ وہ عمل ہے، جس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کوئی چیز، ہڈی یا حنوط شدہ لاش کتنی قدیم ہے۔ اس تجربے کے نتیجے میں یہ بات واضح ہو گئی کہ مذکورہ لاشیں کم از کم 10,000سال قدیم ہیں۔
اس کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ سے پتا چلا کہ ان کا ڈی این اے انسانوں سے بالکل مختلف ہے۔ گویا، کہا جا سکتا ہے کہ یہ زمین پر بسنے والے انسانوں کی لاشیں نہیں ہیں، جب کہ سی ٹی ا سکین سے واضح ہوا کہ یہ مکمل و مربوط لاشیں ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ مختلف جانوروں کی ہڈیاں جوڑ کر ایک لاش بنا دی گئی۔ ان تجربات کے نتیجے میں سب سے دِل چسپ بات یہ معلوم ہوئی کہ مَرتے وقت عورت حاملہ تھی۔
تاہم، جیمی موسان کے اس دعوے کو ابھی تک کسی نام وَر سائنس دان یا سائنسی تحقیقی ادارے نے تسلیم نہیں کیا، جس کی سب سے بڑی وجہ خلائی مخلوق کے لاشیں ملنے کے وہ جُھوٹے دعوے ہیں، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے کیے جا رہے ہیں اور اس ضمن میں جیمی کا اپنا ماضی بھی مشکوک ہے۔ وہ اس سے قبل 2017ء میں بھی کسی دُوسری دُنیا کی مخلوق کی 5لاشیں دریافت کرنے کا دعویٰ کر چُکے ہیں، مگر جب ان لاشوں پر تفصیلی تجربات کیے گئے، تو پتا چلا کہ یہ کسی خلائی مخلوق کی نہیں، بلکہ بچّوں کی حنوط شدہ لاشیں ہیں۔ یاد رہے کہ لاشوں کو کیمیائی مادّے لگا کر محفوظ (حنوط) کرنے کا عمل ہزاروں برس قدیم ہے۔ اس لیے حال ہی میں ملنے والی ان لاشوں کی اصلیت جاننے میں ابھی کچھ وقت لگے گا اور اس سے پہلے ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔
گرچہ غیر زمینی مخلوق کی باقیات کو زمین میں تلاش کرنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں، مگر ایک طویل عرصہ اس جستجو میں صَرف کرنے کے باوجود سائنس دانوں کو ابھی تک اس ضمن میں کوئی کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ البتہ زمین کے علاوہ دوسرے سیّاروں پر جا کر زندگی کے آثار ڈھونڈنا آسان کام نہیں ہے اور اس کی جانچ کے دو ہی ممکنہ طریقے ہیں۔ مثلاً، اگر کائنات میں ہم جان داروں کے علاوہ کوئی اور مخلوق بھی رہ رہی ہے، تو یقیناً وہ آپس میں اپنی مخصوص آواز میں بات چیت بھی کرتی ہو گی۔ سائنس دان اور ماہرینِ فلکیات ان کی آوازوں کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ عمل بالکل اُسی طرح ممکن ہے، جس طرح آج کل موبائل فون پر کی جانے والی گفتگو موبائل ٹاورز یا کسی اور طریقے سے ریکارڈ کی جاتی ہے۔ امریکی خلائی تحقیقی ادارے، ’’ناسا‘‘ نے اپنے خلائی جہازوں کی مدد سے ریکارڈ شدہ مختلف خلائی آوازوں کے انتخاب کا ریکارڈ جاری کیا ہے، جو اس کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ ان میں مُشتری کے بادلوں کی گرج اور مریخ میں آنے والے زلزلوں کی آوازیں نمایاں ہیں۔ کچھ آوازیں سیٹی نُما ہیں، جو بہ ظاہر انسانی لگتی ہیں، مگر ایسا بالکل نہیں ہے۔
ان آوازوں کے علاوہ اب تک کوئی غیر معمولی آواز ریکارڈ نہیں کی گئی کہ جس پر کسی زندہ مخلوق کی آواز ہونے کا شُبہ کیا جاسکے۔ اگر خلا بازوں کے مشاہدات کی بات کی جائے، تو کچھ نے خلا میں ایسی آوازیں سُننے کا دعویٰ کیا ہے، جو صرف جان دار ہی نکال سکتے ہیں۔ چین کے پہلے خلا باز، یانگ لی نے 2003ء میں خلا کا سفر کیا، تو دورانِ سفر اُنہوں نے کچھ ایسی آوازیں سُنیں، جو لوہے کی چادر پر زور زور سے ہتھوڑے مارنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
یانگ لی کے مطابق، اُنہوں نے اُسی وقت پورے خلائی جہاز کا اچّھی طرح جائزہ لیا، مگر جہاز کے اندر مکمل خاموشی تھی، جب کہ زمین پر پہنچنے کے بعد سائنس دانوںنے اُن کے اس دعوے کو وہم سمجھتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ فی الوقت خلا میں ریکارڈ کی گئی آوازوں پر تحقیق جاری ہے اور کچھ ریکارڈ شُدہ آوازوں کی شناخت ابھی باقی ہے۔ تاہم، اب تک کوئی ایسی آواز سامنے نہیں آئی، جسے ماورائے زمین مخلوق کی آواز قرار دیا جا سکے۔
خلائی مخلوق کے وجود کو ثابت کرنے کا دوسرا طریقہ اُڑن طشتریوں کی تلاش ہے۔ کائنات میں اگر زمینی جان داروں کے علاوہ کوئی اور زندہ مخلوق موجود ہے، تو وہ ایک سے دوسری جگہ جانے کے لیے کوئی ذریعہ بھی استعمال کرتی ہو گی اور انہیں سائنس کی زبان میں’’ یو ایف اوز‘‘ (اَن آئیڈینٹیفائڈ فلائنگ آبجیکٹس) یعنی محوِ پرواز نامعلوم اشیا اور اردو سائنس فِکشن میں ’’اُڑن طشتریاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ اُڑن طشتریوں کے وجود کے ضمن میں بہت سی کہانیاں مقبول ہیں۔
ان کہانیوں میں سچّائی کی کچھ نہ کچھ آمیزش ضرور ہے کہ ان کی تفصیلات پر ’’ناسا‘‘ اور ’’پینٹاگون‘‘ جیسے ادارے تحقیق کر رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکا جیسے ترقّی یافتہ مُلک میں گزشتہ صدی سے اب تک اُڑن طشتریاں دیکھنے کے متعدد واقعات ظہور پذیر ہو چُکے ہیں۔ نیشنل جیوگرافک کے صحافی، جویل ماتھز کے مطابق، 1947ء سے1969ء کے درمیان یعنی صرف 22برس کے عرصے میں امریکا میں اُڑن طشتریاں دیکھے جانے کے 12ہزار 618واقعات رپورٹ ہوئے۔
ان تمام واقعات کو ’’پراجیکٹ بلیو بُک‘‘ کے نام سے جمع کر کے یونی ورسٹی آف کولوریڈو میں تحقیقات کا آغاز کیا گیا اور پھر 1985ء میں یونی ورسٹی کی جانب سے ان جیسے تمام واقعات کو تیز رفتار روشنی یا کسی ستارے کے ٹوٹنے سے تشبیہ دے کر تحقیق کا سلسلہ ختم کردیا گیا، مگر اس کے باوجود ایسی غیر معمولی اُڑن طشتریاں نظر آنے کے واقعات کم نہیں ہوئے، جس پر ایک امریکی تاجر نے چند صحافیوں، ماہرینِ فلکیات اور ایک سیاسی شخصیت، ہیری رِیڈ کو اپنے ساتھ ملا کر امریکی حکومت کو ان واقعات پر سنجیدگی سے تحقیق کرنے پر مجبور کرنا شروع کیا۔ بعدازاں، ناسا، سی آئی اے اور پینٹاگون نےان واقعات پر سنجیدگی سے تحقیقات کا آغاز کیا۔ ایک تحقیق کے مطابق مذکورہ اداروں کے پاس 2023ء میں یو ایف اوز دیکھے جانے کے 500سے زاید واقعات رپورٹ ہو چُکے ہیں اور ان میں سے تقریباً 171واقعات تاحال لاینحل ہیں۔
مذکورہ بالا معلومات سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جا سکتا ہے کہ خلائی مخلوق کے وجود سے تاحال دُنیا لاعلم ہے، مگر اس کے وجود سے انکار بھی اُس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک سائنس کسی حتمی نتیجے تک نہ پہنچ جاتی۔ تاہم، بعض سوالات ابھی بھی جواب طلب ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں میکسیکو میں ملنے والی حنوط شدہ لاشوں کی مشابہت اُس خیالی خلائی مخلوق سے کس طرح ممکن ہے، جس کا تصوّر اور نمونہ مختلف کہانیوں اور فیچر فلمز میں پیش کیا جا چُکا ہے؟
خلائی مخلوق کو سائنس فِکشن میں پیش کی گئی مخلوق کی طرح انتہائی ذہین اور ترقّی یافتہ کیوں سمجھا جارہا ہے؟ ان جان داروں کو صرف خلا ہی میں کیوں تلاش کیا جارہا ہے؟ کیا ان کا وجود زمین کی اتھاہ گہرائیوں یا سمندر کے اندر ممکن نہیں؟ بہر حال، اُمید کی جاسکتی ہے کہ میکسیکو میں ملنے والی حنوط شدہ لاشوں سے حاصل شُدہ معلومات اس پیچیدہ معمّے کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔