• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں قائداعظم کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا، انوار الحق کاکڑ

کراچی (ٹی وی رپورٹ) نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ میں قائداعظم کی توہین کے پہلو کا تصور بھی نہیں کرسکتا انہوں نے ہمیں دوقومی نظریہ دیا ہے اسی حوالے سے ہم سب ان کے کردار ان کی وزڈم کو اپنے حصے میں آنا سعادت سمجھیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت جو بات کی تھی اس کا پیرا بالکل مختلف تھا میں نے مڈل ایسٹ اور فلسطینی ایشو پر کہی تھی اور میں آج بھی کہتا ہوں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز بچہ ہے نیتن یاہو کسی بھیڑیئے سے کم نہیں ہے اس کے خلاف تو وار کرائم کی انکوائری ہونا چاہئے،9 مئی کو ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ آپ نے پورے ملک میں جلاؤ گھیراؤ کیاجس کے بعد ہر کوئی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگا ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں ایک انٹرویو میں کیا۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہر کسی کو احتجاج کا حق ہے اوربالکل ہے تاہم دیکھنا ہوگا کہ جو احتجاج ہورہا ہے وہ کس حوالے سے ہے اور اس کی ڈیمانڈ کیا ہیں اس کے علاوہ جو بھی احتجاج ہو اس کو ایک قانون کے دائرے میں ہونا ضروری ہے لیکن اگر کہیں پر امن و امان خراب ہونے کا خدشہ ہو خواہ وہ خدشہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو لیکن ایسا خدشہ موجود ہے تو جو قوانین ہیں اس پر عملدرآمد ہوگا اور ظاہر ہے یہ کام پولیس کا ہے تاہم گزشتہ روز جو کچھ ہواوہ بدقسمتی تھی کہ اس کی وجہ سے ہمیں واٹر کینن کا استعمال کرنا پڑا میں پھر کہہ دوں کہ احتجاج کا حق موجود ہے او راس سے کوئی آپ کو روک بھی نہیں رہا ہے تاہم جو ان کے مطالبات تھے اور جو شکایات تھیں وہ صوبے سے تعلق رکھتی ہیں اس حوالے سے میں نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جس نے ان سے مذاکرات بھی کئے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ اپنے احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور ہم ان کو بالکل نہیں روکیں گے ۔ مجھے جو رپورٹ دی گئی ہے اس کے مطابق ہم نے احتجاج کے دوران جن کو گرفتار کیا تھا ان سب کو رہائی دیدی ہے جبکہ انہوں نے جن جگہوں پر احتجاج کا کہا ہے اور پریس کلب جانے کا کہا ہے ہم ان کو نہیں روکیں گے بالکل وہ وہاں آئیں احتجاج کریں لیکن روڈ بلاک نہ ہوں ۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کی جو جائز ڈیمانڈ ہوں گی ان پر بھی ہم غور کریں گے ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف احتجاج کرتے رہیں ۔ نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے کو دہشت گردی جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ، بلوچستان پچھلی دو دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے پچھلے دو ماہ میں بلوچستان کے اندر دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کا ایک حصہ یا گروہ تشدد اور طاقت کی بنیاد پر ایک نئی ریاست کا حصول چاہتا ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ 15جلی ہوئی لاشیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کی ڈی این اے کے ٹیسٹ کے بعد ان کی شناخت ہوسکی کیونکہ تمام لاشیں مسخ شدہ تھیں یہ وہ لوگ تھے جو جو دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے تھے اورشہید ہوئے میرا سوال ہے کہ کیا وہ پرائے بچے تھے ، تاہم اس کے پیچھے کون تھے یہ بھی دیکھنا ہوگا ۔ تربت میں تھانے پر حملہ کرکے مزدوروں کو شہید کیا گیا پچھلے دو سے تین ماہ میں لگ بھگ 80 کے قریب تربت اور ارد گرد کے علاقے میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں ۔کبھی بھی کوئی نہیں چاہے گا کہ لاء اینڈ انفورسمنٹ ایجنسی کے جوانوں کا مورال کمزور کیا جائے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ انہوں نے ہی لڑنی ہے اگر ہم ان کے ہی مورال کو خراب کردیں گے تو پھر یہ لڑائی کون لڑے گا ۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ کسی سول سوسائٹی کی جانب سے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کی جانب سے کوئی سپورٹ ان کے لئے نظر آتی ہے نہ اس کو لے کر آگے چلا جاتا ہے وہ بھی تو ہمارے ہی بچے ہیں مجھے تو بار بار طعنے دیئے جاتے ہیں لیکن میرا سوال پھر بھی یہ ہوگا کہ جو ملک کے لئے مارے گئے وہ کس کے بچے ہیں ۔جب وائلنس ہوتا ہے تو اس Conflict کے ویکٹم ہر طرف ہوتے ہیں مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ احتجاج ایک جذباتی ایشو ہے لیکن جب بھی آپ کسی معاملے کو یکطرفہ دیکھیں گے تو آپ جو اپنی سوچ رکھیں گے وہ یکطرفہ ہوگی ۔ایک سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت سے امید تھی کہ وہ گورننس اور معیشت کو بہتر کرے گی خود میں نے 2013اور 2018ء میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا جس پر نہ مجھے شرمندگی ہے،میں اگر ریاست کا لفظ استعمال کررہا ہوں تو میرے نزدیک اس کا مطلب کسی صورت صرف فوج نہیں ہے فوج تو ریاست کا ایک اہم کمپونینٹ ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ یہ میری رائے ہے قانون نہیں ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ 9مئی میں ملوث افراد کو پبلک آفس ہولڈر نہیں ہونا چاہئے ۔تاہم اگر ایسا کوئی فیصلہ ہونا بھی ہے تو وہ الیکشن کمیشن کرسکتا ہے میں یا میری کابینہ یا نگرں حکومت نہیں کرسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ پوری پی ٹی آئی کو 9 مئی کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا ہے تاہم جو 9مئی میں ملوث لوگ ہیں ان کو قانون کا سامنا کرنا چاہئے ۔ جو کارروائیاں ہورہی ہیں وہ ان کے خلاف ہورہی ہیں جو براہ راست یا ڈیجیٹل میڈیا کی صورت میں یا فزیکل طور پر اس دن اس واقعہ کے ساتھ جڑے ہیں تاہم کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اس شکایت کو دیکھیں گے الیکشن کمیشن سے بھی اس پر بات کریں گے اور انتظامیہ سے بھی دیکھیں گے کیونکہ اس طرح کا کوئی بھی رویہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ تمام جماعتوں کو لوگوں میں جانا چاہئے اپنا بیانیہ سامنے رکھنا چاہئے اور اس کے نتیجے میں جو حکومت وجود میں آئے وہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اگر کسی کو انتخابی عمل سے روکا گیا ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہئے اور ہم تحقیقات کریں گے ۔ نگراں حکومت کی یا کہیں او ریہ پالیسی نہیں ہے کہ تحریک انصاف کو سیاسی میدان سے بے دخل کیا جائے ۔ 9 مئی کے واقعہ پر انہوں نے کہا کہ ایسی کیا قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ آپ نے پورے ملک میں جلاؤ گھیراؤ کیا جس کے بعد ہر کوئی خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگا ہے۔

اہم خبریں سے مزید