’’میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا بچہ ہوں۔ میری عمر پیدائش سے لیکر 14سال تک ہے۔ میں لڑکی بھی ہوں اور لڑکا بھی ہوں۔ میں مائوں کی گود میں ہمکتا بچہ بھی ہوں اور کسی سڑک کنارے بھیک مانگتا بچہ بھی ہوں۔ میں اسکول جانے والا طالب علم بھی ہوں اور تعلیم سے محروم رہ جانے والا بچہ بھی ہوں۔ میں گھروں میں کام کرنے والی بچی بھی ہوں اور ورکشاپ، چائے خانے پر کام کرنے والا چھوٹا بھی ہوں، میں ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کا بچہ ہوں میں اس ملک کے لوگوں کے خوابوں کا امین ہوں میں اس ملک کا مستقبل ہوں۔
کتنا ضروری ہے کہ ہم ذہنی، جسمانی، روحانی اور سماجی طور پر صحت مند ہوں، مگر ہماری یہ امید یہ خواب یہ خواہش پوری ہی نہیں ہوتی۔ آئیے میرے ساتھ اس گزرتے سال 2023ء پر نظر ڈالیں۔2023ء میں غیر مستحکم مخلوط حکومت اور نگران حکومت کے دوران میں عام انسانوں خصوصاً بچوں کے مسائل اور تکالیف پر کسی کی نظر ہی نہیں پڑتی، کیونکہ ارباب اختیار خود کو مستحکم کرنے یا پھر الیکشن الیکشن کی گردان میں مصروف رہے۔
ہمارے بچوں کا پرسانِ حال کوئی ناتھا اسی لئے کوئی ہلکی سی سسکی کوئی گھٹی ہوئی چیخ، کوئی کمزور سی فریاد کسی کو سنائی ہی نہ دی۔ سمجھ میں نہیں آتا سلسلۂ کلام کہاں سے شروع کروں۔ چلیں میرے ساتھ سب سے پہلے ان کچرا کنڈیوں پر نظر ڈال لیں جہاں سے نوزائیدہ بچوں کی لاشیں اٹھائی گئی ہیں۔ 2023ء کے پہلے 5ماہ کے دوران 87لاشیں کچرے کے ڈھیروں سے ملی ہیں جن میں زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے۔ اور گزشتہ تین ماہ میں صرف کراچی میں آدم شاہ روڈ کچرا کنڈی سے، ایک کورنگی نمبر5 نالے کے پاس سے، ایک سرجانی ٹائون کی کچراکنڈی سے ایک، لیاقت آباد کی گلی سے، ایک بلدیہ کے قبرستان کے قریب سے، اور ایک نارتھ ناظم آباد کی کچرا کنڈی سے 3 نوزائیدہ بچوں کی لاشیں ملی ہیں۔
ان بچوں کی بے حرمتی کی وجہ غربت ہو یا گناہ بہرحال یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس آفیسرز ایسی لاشوں کےلئے قانونی چارہ جوئی کے بجائے انہیں ایدھی یا دوسرے اداروں کے حوالے کردیتے ہیں تاکہ ان کی تدفین کی جاسکے۔ کاش ان بچوں کی مائوں نے فلسطینی مائوں کی طرح ان کے ہاتھوں پراپنا نام ہی لکھ دیا ہوتا، تاکہ ان کی بھی کوئی شناخت کوئی پہچان ہوتی۔ دیکھا ہے نا آپ نے فلسطینی مائیں اپنے زندہ مضروب بچوں اور شہید ہو جانے والے بچوں کی لاشیں کیسے سینے سے لگائی پھرتی ہیں۔ اور ایک طرف یہ نوزائیدہ لاشیں تعفن زدہ کچرا کنڈیوں پر جہاں جانور انہیں بھنبھوڑ رہے ہوتے ہیں۔
2023 میں بچوں کی صورتِ حال دیکھ کر زمیں کی سانس رُکتی رہی، کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا، اسی لئے کوئی ہلکی سی سسکی کوئی گھٹی ہوئی چیخ، کوئی کمزور سی فریاد کسی کو سنائی ہی نہ دی
ادھر بھی دیکھیں ہرسال کی طرح اس بار بھی یہ بڑی تعداد ان بچوں کی ہے حواس دنیا کی روشنی دیکھے بغیرخون اورغذائی قلت کا شکار مائوں کے پیٹ میں ہی فوت ہوگئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 75.3کروڑ افراد مناسب غذا حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ بھوک کا شکار ملکوں میں پاکستان کا نمبر گیارواں ہے۔ پاکستان میں اس وقت ہر5 میں سے میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا شکار ہے۔ اکتوبر 2023ء میں یونیسیف کی رپورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہرایک ہزار بچوں میں 65 بچے 5سال سے کم عمر میں ہی فوت ہو جاتے ہیں۔
یہ تعداد دنیا میں 5ماہ سےقبل مرنے والے بچوں کی اوسط شرح 26اموات فی ہزار بچہ دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 5سے بھی کم ہے۔ اگست 2023ء کے مطابق پاکستان میں سندھ پہلا صوبہ ہے ،جس میں بچوں کی شرح اموات ہیں50فی صد کم ہوئی ہے۔ بچوں کی اموات کا زیادہ تر سبب غذائی قلت، آلودہ پانی اورفضائی آلودگی ہے۔ صرف تھرپارکر میں2023 کے 3ماہ میں غذائی قلت اور اس سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے 673بچے فوت ہوگئے۔
ہزار میں سے74بچے ڈائریا کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔آلودہ پانی کی وجہ سے بچے ٹائیفائیڈ ،ڈائریا ہیپاٹائٹس اور پیٹ کےکیڑوں کے امراض کا شکار ہوئے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں تقریباً 40لاکھ بچے اب بھی سیلاب کے پانی کے قریب زندگی بسرکررہے ہیں اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے بچوں میں سانس کے امراض اورنمونیہ بہت زیادہ ہے۔
2023ء کے دوران آلودہ پانی اور کیمیکلز ملا ملاوٹ والا دودھ پی کر بیمار جانوروں کا گوشت کھا کر گڑ کے غلیظ پانی میں اُگی سبزیاں اور انجکشن لگے پھل اورملاوٹ والے مسالوں میں تیار کئے گئے پھل اور ملاوٹ والے مسالوں میں تیار کئے گئے جانوروں کی آلائشوں سے کشید کئے ہوئے آئل میں پکے کھانا کھانے کے باوجود بچ جانے والے بچے سڑک اورگلیوں میں کھیلتے ہوئے کبھی غلط سمت سے آتی ہوئی گاڑیوں کی ٹکر ،سےکبھی ممنوعہ پتنگ کی ڈور کے گلے پر پھر جانے سے اور کبھی بغیر ڈھکن کے کھلے گٹروں میں گر کر فوت ہو گئے۔
پاکستان میں قوانین تو ہیں، مگر ان کا اطلاق نہیں ہے، اسی لئے وطنِ عزیز میں بچے انتہائی غیر محفوظ ہیں
فوت ہوجانے والے معصوم بچوں میں 5سالہ نعمان بھی شامل ہےجو پرچم والا لباس پہن کر 14 اگست کوجشنِ آزادی کی ریلی دیکھنے گھر سے نکلا تھا، مگراس سے زندہ رہنے کی آزادی چھن گئی اور وہ موت کے منہ میں قید ہوگیا۔صرف کراچی میں بغیر ڈھکن کے گٹروں نےکئی بچوں کو نگل لیا۔ ہے کوئی پریشان؟2023 میں تمام مشکلات کے باوجود بچ جانے والے بچے دوپائوں اورچارپائوں والے جانوروں کا شکار ہوتے رہے۔ پورے ملک میں سگ گزیدگی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے۔
آوارہ کتوں کی شکایت سے متعلق ہیلپ لائن بھی غیرفعال رہی ۔اسپتالوں میں اینٹی ریبیز ویکسین بھی دستیاب نہیں۔ ہم کتوں کو مار نہیں سکتے۔ کیونکہ جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں آن کھڑی ہوتی ہیں۔ بچوں کو ہم گھر سے باہر نکلنے سے روک نہیں سکتے اور اسپتالوں میں ویکسین دستیاب نہیں۔ کیا بے چارگی ہے۔؟ مگر شاید یہ اتنی بڑی بے چارگی نہیں ہے کیونکہ چارپائوں والے جانوروں سے دوپائوں والے جانور زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔
میرے پاکستان میں قوانین تو ہیں، مگر ان کا اطلاق نہیں ہے، اسی لئے وطنِ عزیز میں بچے انتہائی غیر محفوظ ہیں۔ وہ بچے ،جنہوں نے ابھی اس دنیا رنگوں اور روشنیوں کو دیکھنا ہے، تتلیوں کے پیچھے بھاگنا ہے، زندہ رہنے کو محسوس کرنا ہے، ماں باپ سے معصوم سوالات پوچھنے ہیں، ان کی معصومیت کو درندگی کے ذریعے ختم کردیا جائے تو پیچھے کیا رہ جاتاہے، کبھی سوچا ہے۔
انتہائی دل فگار اورکربناک صورتحال بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہیں، جن میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا۔ 2023ء میں 2227 بچے اس درندگی کا شکار ہوئے ۔تقریباً 12بچے روزانہ جنسی زیادتی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ کیسز 74فیصد پنجاب میں، سندھ میں 14فیصد، اسلام آباد میں 7 فیصد، کے پی کےمیں 3 فیصد ،بلوچستان، گلگت، بلتستان ،آزاد جموں اورکشمیر میں 2فیصد رپورٹ ہوئے۔ دم گھٹنے سالگتاہے،اجب اخبار اور ٹیلی ویژن پر بچوں سے درندگی کی خبریں نشرہوتی ہیں، مگر یہی حقیقت ہے۔ شاہ فیصل کالونی میں 9برس کی بچی درندگی کا شکار، ٹنڈوغلام علی میں 6سالہ بچی درندگی کا شکار، ٹنڈو غلام علی میں 6سالہ بچی کے ساتھ زیادتی، حیدرآباد میں12سالہ بچی سے زیادتی خیرپور میں 13سالہ گونگی لڑکی کے ساتھ زیادتی ،پورٹ قاسم کے قریب 6سالہ بچے کے ساتھ زیادتی اورتشدد کے بعد قتل، لاہور میں قبروں سے بچوں کی لاشیں نکال کر بے حرمتی، جیکب آباد میں10سالہ بچی زیادتی کے بعد قتل اور اس کے بعد اس کی قبرکشائی۔
رانی پور میں پیروں کی حویلی میں کام کرنے والی 10سالہ فاطمہ جنسی زیادتی اورتشدد سے جان بحق۔ ڈاکٹرز نے غلط پوسٹ مارٹم رپورٹ بنائی اور پھر قبرکشائی۔ کیا کسی کو سزا ملے گی۔ اگراس کی مرتے وقت تڑپنے ، اٹھنے اوراُٹھ کر گرنے کی ویڈیو وائرل نا ہوتی تو کسی کو خبر ہی نہ ہوتی۔ کراچی میں 12 سالہ بچی سے سوتیلے داداکی زیادتی ، ماموں کی بھانجے کے ساتھ زیادتی ، اب بھی بے شمار زیادتی کے ایسے کیسز ہیں، جن کی کہیں رپورٹ ہی نہیں ہے۔ادھر چکوال میں مدرسہ میں15 بچوں کے ساتھ اساتذہ کی بدفعلی اور زیادتی ، کوئی ا نتہا نہیں ہے کیا ہم مسلمان ہیں کیا ہم انسان کہلانے کے حقدارہیں۔ یہ بچے کہاں محفوظ ہیں گھر، اسکول ،مدرسہ ،محلہ دوکان، تقریبات والدین کو ہر جگہ ان کی حفاظت کرنا ہوگی۔
یہ سسکیاں ،یہ نازک ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آوازیں ، یہ گھٹی ہوئی چیخیں، یہ بکھرتی سانسیں یہ مضروب دل ، ترستی حسرت بھری یاس زدہ آنکھیں اورگالوں پرخشک آنسوئوں کے نشان یہ دریدہ بدن ان کمسن ناتواں بچے اور بچیوں کے ہیں جو اپنے گھروں سے گھروالوں کے لئے رزق کاذریعہ بننے نکلے اور زمین کا رزق بن گئے۔ یہ غربت اور فاقہ کشی کے مارے والدین کے بچے ہیں جن میں چند ہزار روپوں، پرانے کپڑوں اور دو وقت کھانے کے عوض پکے گھروں اور حویلیوں میں رکھوایا جاتا ہے، جہاں وہ اپنے ہم وزن بچوں کو سنبھالتی ہیں گھروں میں صفائی کرتی ہیں۔
چودہ سال سے کم عمربچوں کی ملازمت پر پابندی ہے، اس کے باوجود 12ملین بچے اس وقت مختلف پیشوں سے منسلک ہیں۔ ان بچوں کا بچپن تعلیم، کھیل کود ، شرارت اور فطری معصومیت کے بغیر ہی گزرجاتا ہے
مالکن، بیگم صاحبہ یا وڈی سائین کے ہاتھ پیردباتی ہیں اور جواب میں سیرشدہ ناآسودہ عورتوں کا تشدد برداشت کرتی ہیں۔ مارپیٹ گالم گلوچ اور جسمانی تشدد سے بچ جائیں تو گھر کے پہلے ہوئے مردوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ پچھلے دنوںرانی پور کی فاطمہ، جج کے گھرکام کرنے والی رضوانہ اور لاہور کی ثناء کا ذکر اخبارات ، ٹی وی اور سوشل میڈیا پر بہت رہا، مگرپھر بات وہی کہ کیا کسی کو سزا ہوگی…؟ یہ تو چند آوازیں ہیں جو میڈیا تک پہنچ گئیں ورنہ کتنی ہی کمزور آوازیں اونچی دیواروں سے باہرسنائی ہی نہیں دیتی ہیں۔ آئین پاکستان اور قوانین میں چودہ سال سے کم عمربچوں کی ملازمت پرپابندی ہے۔ اس کے باوجود 12ملین بچے اس وقت مختلف پیشوں سے منسلک ہیں۔ان بچوں کا بچپن تعلیم، کھیل کود ، شرارت اور فطری معصومیت کے بغیر ہی گزرجاتا ہے۔
وہاں پہ تازہ لہو کے سرخ چھینٹے تھے
جہاں میں چاند ستارہ بنانے والا تھا
یونیسیف کی 2023-2022کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبے پنجاب میں9.1ملین،KPKمیں ایک ملین ،جبکہ سندھ میں 298000اور بلوچستان میں 14000بچے چائلڈ لیبر کا حصہ ہیں، ان کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جن میں غربت، وسائل کی کمی اور آبادی میں بے تحاشہ اضافہ شامل ہیں۔ گھروں میں کام کاج کے علاوہ یہ بچے چیزیں بیچتے ہیں، ورکشاپس، کھیتوں، ہوٹلوں،چائے خانوں اوراینٹوں کے بھٹوں پربھی کام کرتے ہیں، جہاں کم اجرت کے ساتھ ساتھ یہ ہر قسم کا ذہنی،جسمانی اورجنسی تشدد و برداشت کرتے ہیں۔ کون انہیں مشقت سےبچاکر اسکول کاراستہ دکھائے گا۔!
2023ء میں بچوں کے لئے حالات انتہائی ناموافق رہے قریباً 148بچے قتل کردیئے گئے۔ ان میں فیصل آباد کی ڈیڑھ سالہ بھی شامل ہے جسے اس کے والد نے ناجائز قراردے کر قتل کردیا۔کئی بچوں کو ان کے والدین نے مہنگائی اورغربت کی وجہ سے قتل کردیا۔ سال 2023ء میں 9ماہ کے دوران 900بچے لاپتہ ہوگئے ہیں جن میں زیادہ تر لڑکے شامل ہیں۔ جن کا تاحال سراغ نہ مل سکا 2023ء میں61کمسن بچوں نے خودکشی بھی کی جن میں سٹی اسکول حیدرآباد کی بارہ سالہ بچی اور محمود آباد کا ساتویں جماعت کا 14سالہ لڑکا بھی شامل ہیں۔ ماہر نفسیات کے مطابق یہ بچے کسی ناکسی طورپر ذہنی دبائو کا شکار رہے کسی کو فکر ہے بچوں کی ذہنی صحت کی۔؟اب ذرا بات ہوجائے تعلیم کی، 2023ء میں پاکستان دنیا بھرکے اسکولوں سے باہر بچوں والے ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی میں 5کروڑ 20لاکھ بچے ہیں۔ 5سے15سال تک کی عمر کے قریباً ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں۔
گھروں میں کام کاج کے علاوہ یہ بچے چیزیں بیچتے ہیں، ورکشاپس، کھیتوں، ہوٹلوں، چائے خانوں اور اینٹوں کے بھٹوں پر بھی کام کرتے ہیں، جہاں کم اجرت کے ساتھ ساتھ یہ ہر قسم کا ذہنی، جسمانی اورجنسی تشدد و برداشت کرتے ہیں۔ کون انہیں مشقت سے بچا کر اسکول کا راستہ دکھائے گا
بلوچستان میں صورتحال زیادہ خراب ہے، جہاں60 فیصد بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ 30 فیصد سرکاری اسکولوں میں پانچویں تک تعلیم حاصل کرنے والے بچے اپنا نام تک لکھنا نہیں جانتے۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سندھ میں 2023ء میں 5.1ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد اسکول جانے والے بچوں کی تعداد دوگنا ہوگئی ہے۔ صوبہ سندھ میں اس سال بھی تدریسی کتابیں بروقت چھپ کرنامل سکیں اور مطلوبہ ڈیمانڈ سے کم تعداد میں چھپوائی گئیں، اس وجہ سے لاکھوں بچے تدریسی کتابوں سے محروم رہے۔
ظاہر ہے یہ بدانتظامی اور نااہلی ہے جس کی وجہ سے اساتذہ زیرتعلیم بچے اور والدین سب ہی پریشان رہے، کیونکہ غریب والدین اس مہنگائی میں بچوں کو کتابیں خرید کردینے کی بجائے انہیں اسکول سے ہٹانے کو زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں۔ درسی کتب کے ساتھ ساتھ سرکاری اسکولوں میں فرنیچر کی بھی شدید کمی ہے حیدرآباد کے میراں گرلز اسکول میں طالبات نے زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ہے۔ شکایت پر بچیوں کو کہاجاتا ہے کہ جس کو کرسی پربیٹھنا ہے۔ وہ گھرسے کرسی لےکر آئے۔
ادھر خیرپور میں کروڑوں کا تعلیمی بجٹ ہونے کے باوجود سیلاب سے تباہ ہو جانے والے اسکول کے طلبا جھونپڑی میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ یہی صورتحال خیرپور ناتھن شاہ میں ہے۔ بدین میں پنگھریو اورملکانی شریف کے درمیان واقع اسکول کے بچے لکڑی کے ایک عارضی کمزور اسٹیک پل کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ننھی جانوں کوخطرے میں ڈال کر اسکول جاتے ہیں۔ کمسن بچوں پراسکولوں میں بھی اساتذہ اپنی ناآسودگیوں کابدلہ ان پر تشددکرکے لیتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کے ساتھ پرائیویٹ اسکولوں میں بھی بچے ناروا سلوک کا شکار ہیں۔ ہیرآباد گرلز اسکول میں ٹیچر نے طالبہ پرتشدد کہا اور اس کے بعد اس کے پال کاٹ دیئے۔ کسی نے اس بچی پر کیا گزری ہو گی سوچا۔؟
اسی طرح دینی مدارس میں بھی کمسن بچوں کو سبق یاد نہ ہونے پربےدریغ تشدد کانشانہ بنایا جاتا رہا۔ کیا پھر بھی بچے تعلیم سے متنفر نہ ہوں گے۔؟ نجانے وہ کون سی دنیا ہے جہاں بچوں کے ساتھ نرمی ،محبت اورشفقت والا سلوک ہوتاہے اس بات کویہاں ختم کرتے ہیں کہ
مختصر وقت میں یہ بات نہیں ہوسکتی
درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے
ہمارےبچے آکسیجن کی مانند ہیں لیکن جب معاشرہ آکسیجن سے بے نیاز ہو جائے گا تو زندہ کیسے رہیں گے۔ اس کے لئے ہمیں آگے بڑھ کر بچوں کے حقوق کے لئے کھڑا ہونا ہوگا۔ بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ حکومتی اداروں کے ساتھ ہر شہری کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔
بیماریوں سے بچائو کیلئے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانا ہوں گے۔ ماحول کو صاف اور آلودگی سے پاک کرنا ہوگا۔ اپنے بچوں کے حقوق کیلئے کوشش کرنا ہوگی۔ انہیں تاریکیوں سے بچانے کیلئے علم کی منزہ روشنی دنیا ہوگی۔ تو آگے آئے تاکہ 2024 کے اختتام پر میرے ملک کے ہر بچے کی آنکھوں میں ستارے چمکتے ہوں لبوں پرمسکان اور چہرے پرآسودگی ہو۔