گزشتہ سے پیوستہ
کوتوالی تھانے کا علاقہ بڑا تاریخی اور مغلوں کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ آج سے پچاس ساٹھ برس قبل یقین کریں یہ علاقہ بہت صاف ستھرا تھا بلکہ یہاں سے بھائی گیٹ تک بسیں جایا کرتی تھیںالبتہ تانگےبہت تھے ۔ ریڑھے، بیل گاڑیاں اور ہتھ ریڑیاںبہت ہوا کرتی تھیں بلکہ کوتوالی تھانے کے باہر تو تانگوں کا مستقل اڈا تھا۔ کوتوالی کے بالکل برابر لنڈا بازار ہے۔ لنڈا بازار بھی بڑا تاریخی اور قدیم ترین بازار ہے جس نے لاہور شہر کیا پنجاب کے کئی غریب گھرانوں کی کپڑوں کے معاملے میں عزت رکھی ہوئی ہے۔ ویسے ہم نےیہاں ایلیٹ کلاس کےنوجوانوں کو بھی خریدداری کرتےدیکھا ہے اس بازار میں بعض اوقات ایسے ایسے شاندار سوٹ اور کپڑے آتے ہیں کہ آپ دنگ رہ جائیں۔
کچھ ذکر ہم کوتوالی کا کر رہے تھے۔ کوتوالی میں فارسی زبان میں آج بھی یہ درج ہے جس کا ترجمعہ یہ ہے۔ جو ہمیں ڈاکٹر عظمیٰ زرین نازیہ (شعبہ فارسی اورنٹیئل کالج) نے بھیجا ہے۔ (جب کوتوالی چبوترہ از سر نو تعمیر ہوا تو ناظر عقل کو عیسوی سال(قطعہ تاریخ) کا خیال آیا۔ اچانک حاضر سروس کوتوال نے کہا کہ ایسی خاموش بیٹھک کا کیا فائدہ۔ مایوسی چھوڑو اور صاف صاف کہو۔ دارالعسس کی تعمیر نو ہوگئی 1851ء)اس مرتبہ ہم یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے کانووکیشن میں گئےتو وہاں ہم نے سوچا آج اس تاریخی اور قدیم عمارت کے بارے میں کچھ ضرور لکھیں۔ ویسے ہمارا گھر اس یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 2 کے بالکل سامنے ہی تھا۔ کیا خوبصورت اور صاف ستھرا علاقہ تھا۔ ہمیں تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ انگریز اس شہر باکمال اور بے مثال کو انتہائی صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک ہمارے حوالے کرکے گئے تھے یہ وہ شہر تھا جہاں مغل شہزادے، بادشاہ اور شہزادیاں اپنی صحت کو بہتر کرنے کیلئے لاہور آیا کرتے تھے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ لاہور کو سب سے زیادہ پسند مغلوں اور انگریزوں نے کیا تھا اور ہم نے آج اس شہر کو دنیا کا گندا ترین اور ٹریفک کے بے ہنگم انڈرپاس، اوور ہیڈ برج اور سگنل فری بنا کر مزید بدصورت اور بدنما کر دیا ہے۔ دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ یوں حکومت عوام کی سہولت کیلئے جوں جوں انڈر پاس، اوور ہیڈ برج اور سگنل فری سڑکیں بنا رہی ہے توں توں لاہور میں ٹریفک کے مسائل اورگندگی بڑھتی جا رہی ہے۔ کوئی یقین کریگا کہ اس شہر کے کئی علاقوں سے رات کی رانی، موتیا اور گلاب کے پھولوں، نیاز بُو کے پودوں کی خوشبو آیا کرتی تھی۔لاہور کا کون سا باغ ایسا نہ تھا جہاں رات کو جگنو نظر نہ آتے ہوں۔ اب تو اس شہر میں جتنے بھی نئے باغ بنائے جا رہے ہیں وہ جگنو کی چمک اور پھولوں کی خوشبو سے خالی ہیں۔ خیر آج ہم لاہور کی بلکہ برصغیر کے قدیم ترین شاپنگ مال یا مارکیٹ یا اپنی نوعیت کے اس پہلے بازار کا ذکر کریں گے جسے ٹولنٹن مارکیٹ کہتے ہیں۔ دوستو! قصہ کچھ یوں ہے کہ آج سے چندبرس قبل جب ٹولنٹن مارکیٹ کو اسکی موجودہ جگہ سے شادمان کی طرف منتقل کردیا گیا اس وقت سوال یہ پیداہوا تھا کہ اس جگہ سے ٹولنٹن مارکیٹ کو منتقل کرکے شہر صاف ہو جائیگا۔ اس پر پھر بات کریں گے۔یہ تاریخی ہال 1864ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ گوروں نے یہ تاریخی ہال ولایت میں مختلف فنون اور صنعتی اشیا کی نمائش کیلئے تعمیر کیا تھا۔ یہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ اور دنیا کے کئی ممالک مختلف علوم میں مہارت حاصل کرکے نئی نئی اشیا بنا رہے تھے اور ان اشیا کی نمائش، ان کے مظاہرے اور معلومات لوگوں کو پہنچانے اور انکی مارکیٹنگ کرنے کے لئے یہ نمائشیں کی جاتی تھیں۔ یہ خوبصورت تاریخی ہال 1864ء میں تعمیر تو ہوگیا مگر گورے اس سے مطمئن نہ تھے۔ چنانچہ 1920ء میں سرگنگا رام نے اس عمارت کی ازسرنو تزئین و آرائش اور تعمیر کی تاکہ یہ خوبصورت نظر آئے۔ یہ تاریخی عمارت ایک سو پچاس برس پرانی ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اور یہاں منتقل ہونے تک لاہور کا شاید ہی کوئی شہری ایساہو جس نے ٹولنٹن مارکیٹ سے اشیائے ضرورت نہ خریدی ہوں۔ لولنٹن مارکیٹ کبھی لاہور کی سب سے خوبصورت عمارت تھی یہاں پر آٹے، دال، چاول، چینی سے لے کر غیر ملکی چاکلیٹس، مرغی، انڈے اور ہر طرح کے خوبصورت آسٹریلیا کے طوطے، مچھلی، گوشت، سبزی ملا کرتی تھی۔ دوسری طرف اس مارکیٹ کے اندر اسلحےکی ایک قدیم ترین دکان، ملک بار کے نام سے ریسٹورنٹ، کیپری ریسٹورنٹ اور بک اسٹال بھی کبھی ہوا کرتے تھے۔ مارکیٹ میں پنجاب ا سٹور، الفتح اسٹوراور الحمراسٹور بھی ہوا کرتا تھا۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ یہاں دو بیکریاں آمنےسامنے تھیں جو سلائس میں مکھن اور کباب لگا کر دیا کرتے تھے۔گورنمنٹ کالج، میو اسکول (اب یونیورسٹی) کے اسٹوڈنٹس کی یہ پسندیدہ جگہ ہوتی تھی۔ ہمارے ایک استاد محترم رانا رشید (اللہ انہیں لمبی عمر صحت کے ساتھ عطافرمائے) وہ تو روزانہ یہاں سے کباب اور سلائس کھایا کرتے تھے، ساتھ میں کوئی کولڈ ڈرنک وغیرہ۔ پتہ نہیں اس کباب اور مکھن میں کیا مزہ تھا جو ایک بار کھا لیتا تھا پھر وہ ان دونوں بیکریوں کا مستقل گاہک بن جاتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر ڈاکٹر رفیق احمد کے دوبھائی شیخ آصف اور دوسرے کا ہم نام بھول گئے ہیں، کا یہاں پر بہت بڑا پنجاب اسٹور انگریزوں کے دور سے تھاض اور انکے والد محترم ساری مارکیٹ میں ننگے پائوں تہبند اور اوپرایک خاص قسم کی قمیض یا اسے کچھ اور کہہ لیں پہن کر اکثر پھرا کرتے تھے۔ اس مارکیٹ میں شورش کاشمیری اور مولانا کوثر نیازی کی بڑی زبردست لڑائی ہوئی تھی۔ مولانا کوثر نیازی نے ڈالڈا گھی کا ڈبہ شورش کاشمیری کو دے مارا تھا۔ اس لڑائی کے ہم اور ہمارے والد چشم دید گواہ بھی تھے۔ وہ گالیاں بھی ہمیں یاد ہیں جو اس موقعے پر دونوں طرف سے ادا کی گئی تھیں۔ آیئے کچھ تھوڑا سا تاریخ میں جھانکتے ہیں۔ٹولنٹن مارکیٹ کو کبھی میونسپل مارکیٹ بھی کہا جاتا تھا۔ ٹولنٹن مارکیٹ سے گول باغ تک سڑک کا نام نمائش روڈ تھا اسکی وجہ یہ ہے کہ جنوری 1864ء سے اپریل 1864ء تک اس مارکیٹ میں یہ نمائش لگی تھی ۔ اس نمائش میں مسلمانوں اور ہندوئوں کے مختلف ادوار کے عجائبات اور اشیا رکھی گئی تھیں اس وقت یہ خیال بالکل نہیں تھا کہ اس نمائش گاہ میں کوئی مارکیٹ تعمیر کی جائے گی بلکہ اس کو نمائش گاہ کے طور پر ہی استعمال کیا جائے گا۔(جاری ہے)