ایوانِ بالا سینیٹ نے الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کر لی۔
سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد آزاد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی۔
دلاور خان نے اپنی قرار داد میں مؤقف اختیار کیا کہ کے پی اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنی قرار داد میں کہا ہے کہ اکثر علاقوں میں سخت سردی ہے، اس وجہ سے ان علاقوں کی الیکشن کے عمل میں شرکت مشکل ہے۔
سینیٹر دلاور خان نے قرار داد میں کہا ہے کہ جے یو آئی ایف کے ارکان اور محسن داوڑ پر حملہ ہوا، الیکشن کی ریلی کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں کے تھریٹ الرٹ ہیں۔
قرار داد میں سینیٹر دلاور خان نے کہا گیا ہے کہ سینیٹ کہتی ہے کہ مسائل حل کیے بغیر الیکشن کا انعقاد نہ کیا جائے۔
آزاد سینیٹر دلاور خان نے اپنی قرار داد میں مزید کہا ہے کہ ایمل ولی کو بھی تشویش ہے، سینیٹ الیکشن کمیشن پر اعتماد کرتی ہے۔
سینیٹر دلاور خان کی قرار دادمیں اپیل کی گئی ہے کہ 8 فروری کے الیکشن شیڈول کو ملتوی کیا جائے، الیکشن کمیشن انتخابات ملتوی کرانے پر عمل کرے۔
سینیٹ نے الیکشن ملتوی کرنے کی آزاد سینیٹر دلاور خان کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کر لی۔
انتخابات کے التواء کے قرارداد کی منظوری کے وقت کُل 14 سینیٹرز ایوان میں موجود تھے۔
عام انتخابات کے التواء کی قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کی گئی۔
پیپلز پارٹی کے سینٹر بہرہ مند تنگی اور پی ٹی آئی کے گردیپ سنگھ نے انتخابات کے التواء کی قرارداد پر خاموشی اختیار کی۔
سینیٹ میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللّٰہ اور نگراں وفاقی وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے الیکشن ملتوی کرنے کی قرار داد کی مخالفت کی ہے۔
اس حوالے سے افنان اللّٰہ نے ایوانِ بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں سینیٹر دلاور خان کی وجوہات کو درست کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا ہےکہ ملک میں سیکیورٹی کے حالت ٹھیک نہیں لیکن 2008ء اور 2013ء میں حالات اس سے زیادہ خراب تھے۔
سینیٹر افنان اللّٰہ نے کہا کہ سیکیورٹی کا بہانہ کر کے الیکشن ملتوی کریں گے تو کبھی الیکشن نہیں ہوں گے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ اور امریکا نے الیکشن ملتوی کیا تھا؟
سینیٹر افنان اللّٰہ نے کہا کہ موسم کا بہانہ بنایا جاتا ہے، جس کے باعث فروری میں 2 مرتبہ الیکشن ملتوی ہو چکے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ مجھے بتائیں کہ کیا ملک آئینی اداروں کے بغیر چلے گا؟
مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللّٰہ نے کہا کہ کہا گیا کہ بجلی نہیں ہے الیکشن نہ کرائے جائیں، کہا گیا کہ گیس نہیں ہے الیکشن نہ کرائے جائیں، کہا گیا کہ باجوڑ میں اسکول نہیں بنے ہوئے، الیکشن نہ کرائے جائیں۔
اس موقع پر نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی قرار داد کی مخالفت کی۔
مسلم لیگ ق کے سینیٹر کامل علی آغا نے قرارداد کی حمایت کر دی۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر کہدہ بابر نے کہا کہ کیا صرف سیاستدان ہی مرنے کے لیے بچے ہیں؟ یہ حکومت بتائے کہ ہماری سیکیورٹی کے لیے کیا گیا ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ میرے انکل کا آج انتقال ہوا ہے، میں یہاں تقریر کر رہا ہوں، ایسا نہیں ہو گا کہ آپ ہمیں صرف مرنے کے لیے چھوڑ دیں۔
سینیٹر کہدہ بابر نے کہا کہ جو لوگ مہم چلانا چاہتے ہیں ان کی سیکیورٹی کے لیے اقدامات کون کرے گا؟ صرف تھریٹ الرٹ جاری نہ کریں، سیکیورٹی بھی دی جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک میں صورتِ حال خراب ہے، الیکشن لڑنے والے محفوظ نہیں، جہاں جہاں حالات خراب ہیں ان کے حوالے سے چیف سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ کو بلایا جائے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر ہدایت اللّٰہ خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم الیکشن کے خلاف نہیں، ہم الیکشن لڑیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی جماعت کو ایک بچے سے بھی ہراؤں گا، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن ہو لیکن کسی کا خون نہ بہے، ہمیں سیکیورٹی دیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر پرنس عمر نے ایوانِ میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری تیاری پوری ہے، جو فضا بلوچستان اور کے پی میں ہے اس کا انہیں نہیں معلوم، وہاں دہشت گردی اور سردی ہے۔
پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے منظور کاکڑ نے کہا کہ ہم الیکشن کے لیے تیار ہیں، ہم اپنے عوام کو دہشت گردی کی لپیٹ میں نہیں جانے دیں گے۔
اس موقع پر شہادت اعوان اور پلوشہ خان نے بات کرنے کی اجازت مانگی تاہم چیئرمین سینیٹ نے اجازت نہیں دی اور اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا۔