کسی کے ساتھ دشمنی کا تعلّق قائم ہو جانا اگرچہ کسی بھی لحاظ سے قابل ِ ستائش عمل نہیں لیکن افراد اور قوم کی زندگی میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے مواقع آجاتے ہیں جب مفادات یا اصولوں کے ٹکرائو کی وجہ سے دوستی کا ماحول برقرار نہیں رہتا ، اور کشیدگی جنم لیتی ہے جو بعض اوقات بڑھتے بڑھتے لڑائی جھگڑے کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔ اور اس جھگڑے سے پیدا ہونے والے نتائج تعلّقات کو مزید خراب کر دیتے ہیں۔ ایسی کیفیت میں ایک فریق اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے عقل و بصیر ت کا دامن چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات ایسی حرکات پر اتر آتا ہے جس سے اس کے دشمن کو کم جبکہ اسے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایسی سوچ دورِ جہالت کے اس اصول پر کار فرما ہوتی ہے کہ ’’ اپنے دشمن کی بھینس کو جان سے مارنے کے لئے اپنے گھر کی دیوار بھی اس پر گرانی پڑے تو مضائقہ نہیں‘‘بلکہ عقلمند شخص اپنے دشمن کو اس طرح زیر کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے کہ اسے خود کوئی گزند نہیں پہنچتی اور وہ اس دشمنی سے نہ صرف سرخرو ہو کر نکلتا ہے بلکہ اس دشمنی کو اس حد سے بڑھنے نہیں دیتا جو خود اس کے وجود کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ تقسیم ِ ہند کے دوران بد قسمتی سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے تنازعے پر شروع ہونے والی دشمنی کو تقریباََ 70سال ہونے والے ہیں جس کے دوران ہونے والی جنگوں نے اس خطے کو بھوک غربت اور پسماندگی کے سِوا کچھ بھی نہیں دیا۔ اگرچہ ان جنگوں نے دونوں ممالک کے عوام کے دکھوں میں اضافہ کیا ہے لیکن اگرانصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو اس میں انڈیا کی نسبت پاکستان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسے اپنے مشرقی حصّے سے ہاتھ دھونا پڑا اور بقیہ پاکستان بھی معاشی اور انتظامی انتشار کا شکار ہو گیا ہے۔ اگر تدبّر کا مظاہرہ کیا جاتا تو یہ دشمنی بھی ہمارے لئے اضافی طاقت کا باعث بن سکتی تھی۔ اور ہم تخلیق ِ پاکستان کے جواز میں ایک مہذب تعلیم یافتہ اور پروگریسو پاکستان دنیا کے سامنے لا سکتے تھے۔ جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہوتا کہ برّصغیر ہند کی تقسیم نا گزیر تھی۔ اور موازنے کے لئے ہم ہر لحاظ سے بہتر پاکستان پیش کر سکتے تھے جہاں جمہوری ادارے مستحکم ہوتے، جہاں استحصالی نظام ختم کر دیا گیا ہوتا،جہاں معاشی خوشحالی ہوتی۔ جہاں عدلیہ ، فوج اور انتظامیہ سمیت ہر ادارہ ایک دوسرے کا احترام کرتا ، جہاں مذہبی ، لسانی اور گروہی تعصّبات نہ ہوتے۔ جس کے اپنے ہمسایوں اور دنیا بھر کے دیگر ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہوتے جو بڑی طاقتوں کی محاذ آرائی میں فریق نہ بنتا۔ اور نہ ہی اپنی سرزمین کو آگ اور خون میں نہلانے دیتا۔ اس سے نہ صرف اس کا مشرقی حصّہ کبھی جدا نہ ہوتا بلکہ اسکی ترقی اور شاندار کارکردگی کی بنیاد پر اور علاقے بھی اس میں ضم ہونے کی خواہش کرتے۔ گویا وہ ہر لحاظ سے بھارت سے مضبوط اور بہتر ملک ہوتا۔ یہ تھے دشمنی کے حقیقی تقاضے اور ایسا ہونا ممکن بھی تھا کیونکہ بھارت کی نسبت پاکستان اپنے حجم آبادی اور رقبے ، مذہبی اور لسانی تضادات کے حوالے سے کہیں بہتر ملک تھا۔ بھارت کی نسبت اس کے اندر علاقائی ، قومی ، مذہبی ، گروہی اور لسانی تضادات نہ ہونے کے برابرتھے۔ اس کے اندر بھارت کی نسبت تیز ترین ترقی کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ تھی۔ لیکن عملی طور پر کیا ہوا۔ ہم اپنی غلط حکمتِ عملیوں اور اندھی نفرت کے جنون میں بھارت سے ہر محاذ پر پیچھے رہ گئے۔ ہم سے سات گنا بڑا ملک بھارت آج بھی اپنی جمہوریت کے بل بوتے پر ایک ملک کے طور پر قائم ہے۔ہم اپنے مسلم اکثریتی علاقے کو بھی زیادہ دیر تک اپنے ساتھ نہ رکھ سکے۔ ہندوستان نے 49میں اپنا آئین بنا لیا، ہمارا ملک ٹوٹ گیا تو ہم نے پچیس سال کے بعد اپنا پہلا آئین ملک میں نافذ کیا۔ جسے اگلے ستائس سالوں میں تین ڈکٹیٹروں نے یکے بعد دیگرے ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ واہگہ بارڈر سے انڈین علاقے میں داخل ہوتے ہوئے ایک بورڈ پر اردو میں لکھی ہوئی یہ عبارت’’ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں خوش آمدید ‘‘ شاید پاکستانیوں پر طنز کے لئے لکھی ہوئی ہے۔ بھارت نے آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہی جاگیرداری نظام ختم کر دیا لیکن ہمارے ہاں جاگیردار پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں۔ بھارت کی معیشت دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہونے لگی ہے جبکہ ہم بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ بجلی ، گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ہماری بچی کھچی صنعتوں کو بھی ملک بدر کردیا ہے۔ بھارت کی یونیورسٹیاں ایشیا ء کی پانچ بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیںجبکہ ہمارا کہیں ذکر بھی نہیں۔ ہم آج دنیا میں انتہا پسندی اور قتل و غارت گری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ ہم نے ترقی کے کسی محاذ پر بھی بھارت سے آگے نکلنے کی کوشش نہیں کی ماسوائے جنگی سازو سامان کے اور جنگی جنون پیدا کرنے کے۔ لیکن جنگوں نے ہمیں کیا دیاصرف غربت ، تباہی اور جہالت اگر ایٹم بم ترقی اور استحکام کے ضامن ہوتے تو ہم سے کہیں بڑی ایٹمی طاقت سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتی ۔ قوموں کا استحکام ، اسلحے سے نہیں مضبوط معیشت سے ہوتا ہے۔اور ہماری معیشت کا یہ حال ہے کہ اگر ہمیں بیرونی قرضے نہ ملیں تو ہم اپنے ملازموں کی تنخواہیں بھی ادا کرنے کے قابل نہیں۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہندوستان کے مقابلے میں ہماری خارجہ پالیسی قدم قدم پر فیل ہورہی ہے۔یہ خارجہ پالیسی جو اعلیٰ دماغ تخلیق کرتے ہیں انہیں نظرہی نہیں آرہا ہے کہ ہم کس طرح اقوامِ عالم سے کٹتے جا رہے ہیںاور تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ وہ امریکہ جسے دنیا کی اکلوتی سپر پاور بنانے کے لئے ہم نے اپنی دھرتی کو آگ اور خون میں نہلادیا۔ اور ہوس ِ ملک گیری کی جنگ کو ’’ جہاد ‘‘ کا نام دیکر انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنا مقدر بنا لیا۔ وہی امریکہ بھارت کے ساتھ ملکر ہمارے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کر کے ہمارا محاصرہ کرنے پر تلا ہو اہے کیونکہ ہم دنیا کے سامنے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو میں ملّوث ہونے کا اقرار کر چکے ہیں صرف یہی نہیں ہمارے قریبی ہمسایہ اسلامی برادر ملک افغانستان اور ایران بھی بھارت کے ساتھ ملکر ہماری خارجہ پالیسیوں اور حکمتِ عملی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ افسوس کہ ہم مثبت انداز میں دشمنی کے تقاضے اور حدیں بھی پوری نہیں کر سکے اور دشمن کو کمزورکرنے کی بجائے ہر محاذ پر خود کو کمزور کرتے جا رہے ہیں کیا اقتدار کے تمام سرچشمے آنے والے کل کی خوفناک تصویر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں؟