• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اینٹی بایوٹک بھی بیکٹیریا کے خلاف غیر مؤثر، متبادل کیا ہے ؟

جراثیم خاص طور پر بیکٹیریا سے انسان کا واسطہ اور تعلق بہت پرانا ہے ۔ یہ خرد بینی جانداروں کا گروپ ہے جو کہ ایک خلیے یا کئی خلیوں کے گروپ میں پائے جاتے ہیں۔ بیکٹیریا کے بارے میں یہ بات عام ہے کہ یہ جاندار آتش فشاں پہاڑ کے داہنوں سے لے کر انٹار کٹیکا کی برف میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ بیکٹیریا مختلف شکلوں کے ہوتے ہیں جو کہ ان بیکٹیریا کے نام کی بنیاد بھی بنتی ہے۔ مثال کے طور پر گول، چھڑی کی طرح یا پھر سرپل وغیرہ وہ شکلیں ہیں جو زیادہ تر پائی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اور بھی شکلوں میں بیکٹیریا مٹی سے لے کر پانی اور مختلف جانداروں میں ملتے ہیں ۔یہ بیکٹیریا نقصان دہ یا فائدے مند ہوسکتے ہیں۔ 

نقصان دہ بیکٹیریا انسانوں، جانوروں اور پودوں میں بیماریوں کا باعث بنتے ہیں دوسری طرف فائدے مند بیکٹیریا نظام ہاضمہ ، بعض وٹامنز کی پیداوار اور یہاں تک کہ مدافعتی نظام کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بیماری پیدا کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف سب سے زیادہ موثر دوا یعنی اینٹی بایوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے جو کہ الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928 ءمیں دریافت کی تھی۔ مختلف قسم کی اینٹی بایو ٹک یا تو بیکٹیریا کو مار کر یا ان کی نشوونما کو روک کر کام کرتی ہیں، مگر آج کے دور میں یہ دوا بے اثر ہوتی جارہی ہے۔ 

اس کی بڑی وجہ ان ادویات کا زیادہ یا غلط استعمال ہے، جس کی وجہ سے مختلف بیماریاں پھیلانے والے بیکٹیریا ان اینٹی بایوٹک ادویات کو غیر موثر بنانے کے قابل ہوگئے ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ بیکٹیریا ان ادویات کے خلاف مزاحم ہیں بلکہ اپنے خلیاتی نظام کو اس درجہ تبدیل کرچکے ہیں کہ کئی کئی اینٹی بایو ٹک کو ایک ساتھ غیر موثر کر سکتے ہیں۔ بیکٹیریا کے یہ مزاحمت انسانوں میں مختلف انفیکشن کے علاج کے لیے ایک بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث بن چکی ہے اور اس خطرے نے ساری دنیا کے طبی شعبے کو پریشان کر رکھا ہے ،کیوں کہ یہ معیاری علاج کی تاثیر کو محدود کررہا ہے اور یہ طویل بیماریوں، صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں اضافہ اور سنگین صورتوں میں اموات کا باعث بن رہا ہے۔ 

دراصل اگر کوئی بھی بیکٹیریا، وائرس یا فنگس کسی بھی اینٹی بایوٹک یا کسی اور دوا کے استعمال سے بہت عرصے تک علاج کے لیے تعامل کرتا رہے تو ان خرد بین جراثیموں میں ان دوائیوں کے سامنے زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ صلاحیت بذاتِ خود جینیاتی تغیرات کا نتیجہ ہوتی ہیں، جس میں بیکٹیریا، دوا یا اینٹی بایو ٹک کو توڑنے یا کسی اور صورت بے اثر کرنے لگتا ہے۔ اس کو ہم اینٹی بایوٹک مزاحمت کہتے ہیں۔ آج کل کے جدید طبی دور میں اینٹی بایوٹک مزاحمت بہت بڑی مشکل بنتی جارہی ہے۔ 

پہلے پہل تو یہ جراثیم صرف ایک یا دو اینٹی بایوٹک سے مزاحمت دیکھاتے تھے، مگر آج دس سے لے کر پندرہ اینٹی بایوٹک کا مجموعہ بھی بعض بیکٹیریا کی اسٹرین میں کچھ اثر نہیں کررہا ہے۔ پہلے تو ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ منظر عام پر آنا شروع ہوئی جو کہ ایک ایسا بیکٹیریا ہوتا ہے جو تین میں سے ایک دوا یا اینٹی بایوٹک سے حساسیت رکھتا ہے ،پھر ایکسٹینسیو ڈرگ ریزسسٹنٹ جو کہ دئیے جانے والے اینٹی بایوٹک کے مجموعے میں سے کم از کم ایک سے حساسیت رکھتا ہوں۔ اس وقت پین ڈرگ ریزسسٹنٹ جو کہ تمام اینٹی مائیکرو بیل ایجنٹوں میں سے کسی سے بھی حساس نہیں ہے سب سے خطرناک بُگ کے طور پر سامنے آیا ہے۔ 

دنیا بھر میں موجود تحقیقی ادارے نئے مالیکیولز دریافت کرنے کی کوشش میں برسر پیکار ہیں جو کہ اینٹی مائیکرو بیل ایجنٹ کے طور پر سامنے آسکے۔ اس طرح کی تحقیق میں جانوروں، پودوں، فنگس اور دیگر خرد نامیہ سے حاصل کردہ نامیاتی سالمے یا مالیکیول کو مختلف اینٹی بایوٹک مزاحمتی بیکٹیریا پر چیک کیا جارہا ہے اور نئے طریقوں کے ذریعے اس کے اثرات میں اضافہ کر کے بھی ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں سانپ کے زہر اور پودوں کے بیج بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔ 

سانپ کے زہر میں موجود ٹاکسن یا خامروں کی تلاش کی جارہی ہے جو کہ بیکٹیریا کو توڑ سکے یا اس کے خلیے میں سوراخ کر کے اس کو ختم کرسکے اور کوئی لیڈ مالیکیول مل سکے۔ پودوں کے بیج کے پروٹین کو لے کر بھی یہی کام کیا جارہا ہے۔ سینٹر فارپروٹیومکس میں ایک ایسا ہی تحقیقی پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا، جس میں دھتورا کے بیج کے پروٹین اور ایک وائپر سانپ کے زہر کے پروٹین کو ایک خاص بیکٹیریا جو کہ اینٹی مائیکرو بیل دوا میتھیسلین سے مزاحمتی تھا ،اُس کے خلاف آزمایا گیا۔ سانپ کے زہر کے کچھ حصے ایسے پائے گئے جو کہ اس مزاحمتی بیکٹیریا کے خلاف کام کررہے تھے۔ یعنی بیکٹیریا کے حفاظتی نظام کو ختم کر کے اس کو مار رہے تھے ۔ 

جب کہ دھتورا سے حاصل شدہ پروٹین میں یہ سر گری نسبتاً کم دیکھنے میں آئی۔ اس کے علاوہ پودوں کے پتوں، ڈنڈی یا جڑوں سے حاصل شدہ نامیاتی عرق یا محلول جو کہ مختلف نامیاتی محلل کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے ،اسی طرح کی تحقیق میں مسلسل رپورٹ کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح کوئی بھی لیڈ مالیکیول ملنے کی صورت میں اس پر مزید تحقیق کر کے یہ تصدیق کرنا ہوتی ہے کہ یہ مالیکیول ایک اچھا متبادل ثابت ہوسکتا ہے اور پھر دوا سازی کے ذریعے دنیا کی مارکیٹ میں لایا جاتا ہے۔ 

اس طرح کی تحقیق میں نینو ذرّات کا استعمال بھی اہم ہے۔ چاندی کی دھات سے بنے نینو ذرّات اگر دس نینو میٹر کے سائز کے ہوتے ہیں تو ان کی بیکٹیریا کے خلاف انتہائی موثر سر گرمی مشاہدے میں آتی ہے جب کہ سو نینو میٹر کے سائزکے نینو ذرّات بیکٹیریا کے ساتھ ساتھ عام خلیات کے لیے بھی مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ نینو ذرّات پر مبنی اینٹی بایو ٹک کنسٹرکٹ بایو میڈیکل سائنسز میں تحقیق کا ایک مقبول میدان بن چکے ہیں۔ اس کا م کا زیادہ تر حصہ انسانی بیماریوں سے متعلق ہے جیسا کہ کینسر کے علاج کے میدان میں ۔ نینو کمیسٹری کی یہ تحقیق دیگر بیماریوں پر قابو پانے کے علاوہ بیکٹیریل انفیکشن پر بھی کی گئی ہے۔

خاص طور پر ایسے بیکٹیریا کے انفیکشن جو کہ موت کا باعث بننے والی سنگین بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر میتھسلین سے مزاحمت رکھنے والا بیکٹیریا، جس کانام’’ اسٹیفلو کوکس اور لیس‘‘ ہے ایک ایسا جرثومہ ہے، جس کی وجہ سے ہونے والے انفیکشن کے آغاز نے جراحی کی پیچیدگیوں، مسلسل انفیکشنزاور دستیاب علاج کی کمی جیسے مسائل پیدا کردئیے ہیں۔ یہ ہی نہیں بلکہ جیسا پہلے بتایا جا چکا کہ اینٹی بایوٹک کے مجموعے میں سے کسی بھی ایک سے حساسیت نہ رکھنے والی پین ڈرگ ریزسسٹنٹ بیکٹیریا تو سب سے خطرناک جرثومہ بن چکے ہیں۔ دھاتوں سے بنے نینو ذرّات ہویا نامیاتی نینو ذرّات، دونوں کو اس ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ بیکٹیریا کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقوں سے تجریاتی طور پر پرکھا جارہا ہے۔ 

دھاتوں میں سونا، چاندی، تانبا اور دیگر استعمال کیے جارہے ہیں جب کہ نامیاتی میں لیپو سوم، لیکٹک ایسڈ اور گلائے کولک ایسڈ وغیرہ کے ساتھ تجربات کیے گئے ہیں۔ اس نقطہ نظر کو بھی آزمایا گیا ہے کہ ان دونوں طرح کے نینو ذرّات کو ملا کر دیکھا جائے یا پھر یہ کہا جائے کہ نینو ذرّات اور اینٹی بایوٹک کو لا کر ان کی اثرات کو ریزسٹنٹ بیکٹیریا پر ڈال کر چیک کیا جائے۔ اس طرح کے نقطہ نظر سے تجربات کرنے کے مثبت نتائج اخذ کیےہیں کہ دو دھاتوں سے بنے نینو ذرّات جن میں سے ایک دھات سونا ہو اور دوسری دھات روڈیم یا روتھیم ہو تو یہ ذرّات گرام منفی بیکٹیریا کے خلاف مقابلہ کرنے اور زخم کے انفیکشن کے علاج میں قابل ذکر صلاحیت رکھتے ہیں۔ 

البتہ یہ دھات الگ الگ نینو ذرّات کی صورت میں وہ صلاحیت دیکھانے میں ناکام دیکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ اینٹی بایوٹک سے مزاحمت کا پتہ لگانے کے لیے بھی کچھ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جہاں بیکٹیریا کو تجربہ گاہ میں مخصوص پیٹری پلیٹ میں مصنوعی میڈیا پر نشوونما دی جاتی ہے اور پھر مختلف اینٹی بایوٹک سے اس بیکٹیریا کے بڑھنے یا نشوونما گھٹنے کے عمل کا مشاہدہ کیا جاتا ہے یہ ایک بہت عام ساٹیسٹ ہوتا ہے جو کہ کسی بھی تشخیصی مرکز یا تحقیقی ادارے کی تجربہ گاہ میں کیا جاسکتا ہے۔

لیکن اب یہ مسئلہ درپیش ہے کہ بیکٹیریا کے مزاحمتی عمل میں بہت تیزی آگئی ہے اور بہت کم وقت میں بہت سارے انفیکشن کرنے والے بیکٹیریا اپنے آپ کو زیادہ تر اینٹی بایوٹک سے مزاحمتی بنانے میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں ۔ لہٰذ ا اب صرف ضرورت اس بات کی محسوس کی جارہی ہے کہ بیکٹیریا کے اس مزاحمتی نظام کو پہلے ہی بھاپ لیا جائے اور اس طریقے سے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا اور طریقے کو تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے پایۂ تکمیل تک پہنچایاجائے۔ 

اسی سلسلے میں اب باقاعدہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی تیاری کی جارہی ہے جیسا کہ ڈبلیو ایچ او کے گلوبل ٹی بی پروگرام نےمئی 2023 ء نے ٹارگٹڈ این جی ایس سلو شنز کے استعمال سے متعلق موجود شواہد کا جائز ہ لیا اور اینٹی بایوٹک کے خلاف مزاحم ٹی بی کے بیکٹیریا کا پتہ لگاکران کے طبی استعمال کے بارے میں فیصلہ کیا گیا۔ ٹی بی کا بیکٹیریا انتہائی تیزی سے تمام تر موجودہ اینٹی بایوٹک سے ریزسسٹ بن چکا ہے اور یہ بین الاقوامی سطح پر انفیکشن کے شعبے میں پریشانی کا باعث ہے۔ اس لیے نیکسٹ جنریشن سیکوینسنگ یا این جی ایس جیسی جدید تیکنیک کے ذریعے ایسے ٹی بی کی اسٹرین کو شناخت کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔ 

ایک طرف مزاحمتی بیکٹیریا کی شناخت کا طریقہ کار جدید خطوط پر استوار کیا جارہا ہے تو دوسری طرف نئی اینٹی بایوٹک یا اینٹی بایوٹک کا نینو ذرّات کے ساتھ امتزاج کے ذریعے نیا طریقہ علاج ڈھونڈا جارہا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ دوا کے طور پر جلد ہی بعض نئی مالیکیول سامنے آجائیں اور اس اینٹی بایوٹک ریز سٹنس سے کچھ زمانے کے لیے چھٹکارا مل جائے، مگر یہ بات اب کھل کر سامنے آگئی ہے کہ نئی اور دوبارہ تیار کردہ دوائیوں کے خلاف بھی بیکٹیریا اپنے مزاحمت کو بتدریج بڑھا سکتے ہیں۔ 

لہٰذا اس مرتبہ نئی دوا کا مخصوص استعمال اور جس انفیکشن کے لیے اس کو استعمال کیا جارہا ہے اسی انفیکشن کرنے والے بیکٹیریا کا جنیاتی اور ظاہری مشاہدہ اور اس میں ردو بدل بھی مانیٹر کیا جائے، تاکہ اس امکان کا پتہ چلایا جاسکے کہ کب تک یہ بیکٹیریا اس نئی دوا سے حساسیت رکھتا ہے اور کب اس نے اپنے لیے مزاحمتی تبدیلی کرنی شروع کردی ہے بہرحال نینو ذرّات نے اینٹی بایوٹک کے متبادل کے طور پر اپنی صلاحیت ظاہر کردی ہے۔ اب یہ محققین کے اوپر منحصر ہے کہ وہ ان کو کس طرح استعمال کے قابل بناتے ہیں، تاکہ اینٹی بایو ٹک مزاحمت سے چھٹکارا پایا جاسکے۔ 

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید