پاکستان کے عدالتی نظام کی ’ماہرین قانون کے مطابق‘ سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر نو آبادیاتی دورکی مصلحتوں اورمفادات پر مبنی ہے۔ برصغیر کے انگریز حکمرانوں نے اس کی اساس اپنی مخصوص ضرورتوں پر رکھی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اسے یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت تھی مگر بدقسمتی سے وقتاً فوقتاً اس میں جو تبدیلیاں لائی گئیں اور نئے قوانین بنائے گئے وہ بھی ایک آزاد قوم کی امنگوں، مذہبی تقاضوں اورعوامی مزاج اور روایات سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں تھے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کا کوئی بھی طبقہ ان سے مطمئن نظر نہیں آتا، نچلی سطح پر کرپشن کی شکایات عام ہیں۔ جن مقدمات کے فیصلے دنوں یا مہینوں میں ہونے چاہئیں، سالہاسال گزرنے کے بعد بھی نہیں ہوتے، شاید اسی وجہ سے عالمی جسٹس پراجیکٹ کے رول آف لا انڈیکس میں پاکستان کی عدلیہ کی 139ملکوں کی فہرست میں 130واں نمبر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کےموجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدالت عظمیٰ کے پہلے سربراہ ہیں جنہوں نے اس صورتحال کا نوٹس لیا ہے اور اس کی اصلاح کے لئے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ اس سلسلے کا سب سے اہم قدم قاضی فائز کے چیف جسٹس بننے کے بعد سپریم کورٹ کی تین ماہ کی کارکردگی رپورٹ کا اجرا ہے تاکہ عوام کو اس حوالے سے معلومات تک رسائی حاصل ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 19۔اے کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔ وہ تمام لوگ عوام کو جواب دہ ہیں جنہیں قومی خزانے سے تنخواہ ملتی ہے۔اپنے پیغام میں رپورٹ کے اجرا کے موقع پر انہوں نے کہا ہے کہ زیر التوا مقدمات کی تعداد بڑھنے پر تنقید تو ہوتی ہے لیکن تمام حقائق نہیں بتائے جاتے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 17؍ستمبر 2023ء سے 16دسمبر تک عدالت عظمیٰ نے 859 مقدمات نمٹائے۔ 17؍ستمبر کو زیر التوا مقدمات کی تعداد 56503تھی جو 16؍دسمبر کو 55644رہ گئی۔ اس عرصے میں 466 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ 5305 نمٹائے گئے۔ رپورٹ کے مطابق 2023ء میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 20116 تھی جو 2023ء میں بڑھ کر 55971تک جا پہنچی جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مقدمات نمٹانے کی رفتار کتنی سست ہے۔ رپورٹ میں 17؍ستمبر 2023ء سے ، جس روز قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا، 16 ؍دسمبر 2023ء تک سپریم کورٹ کے اہم فیصلوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں جن میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء ، ملک میں انتخابات کےانعقاد اور ملٹری کورٹس سے متعلق آئینی مقدمات سمیت انسانی حقوق ، سول و فوجداری اورعوامی نوعیت کے کیسز شامل ہیں، اسکے علاوہ اسی عرصے میں سپریم کورٹ میں اہم انتظامی معاملات کی تفصیلات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ زیرالتوا مقدمات نمٹانے پر کتنی سنجیدگی سے توجہ دی گئی ہے۔ عدالتی نظام کو موثر بنانے کی ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہماری عدالتوںنے ماضی میں ایسے فیصلے بھی دئیے جو آئین و قانون کے مطابق نہیں تھے اور جن کے منفی نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے کارکردگی کا جو نیا معیار قائم کیا ہے وہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک نئے مثبت رجحان کا غماز ہے جس سے ملک کے نظام عدل پر عوام کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالتی اصلاحات لائی جائیں۔ عدالتوں میں نا صرف انصاف کو یقینی بنایا جائے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ ماتحت عدالتوں میں کرپشن کی شکایات کا ازالہ کیا جائےاور مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا سدباب کیا جائے کیونکہ انصاف میں تاخیر بھی ناانصافی کے مترادف ہے۔