• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

‎8 فروری 2024 کے انتخابات کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے، التوا کے حوالے سے شکوک و شبہات اب تقریباً ختم ہو کر رہ گئے ہیں، البتہ انتخابی شفافیت پر جو سوالات اٹھائے جا رہے تھے ان کے جوابات پر شاید ابھی تک پوری تسلی نہیں پائی جا رہی، بالخصوص پی ٹی آئی بلا چھن جانےکے بعدحالت یتیمی میں ہے،‎سیاسی پارٹیوں میں انتخابی منشور یا بیانیہ پر اتنی توجہ نہیں دی جا رہی جتنی دی جانی چاہیے۔ اصل عوامی منشور تو وہی ہوتا ہے جو عوامی مسائل اور دکھوںکا حل اور انکی امنگوں کی ترجمانی کرتا ہو، دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس وقت عوام کی پرابلم نمبر ون کیا ہے؟ کوئی شک نہیں کہ اس وقت پورے پاکستان کا اولین مسئلہ معاشی ہے۔ لوگ مہنگائی،غربت اور بیروزگاری کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں اور اپنے پاس آنیوالے عوامی نمائندوں سے ایک ہی مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مہنگائی ہماری قوت برداشت سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے، بجلی کے بل بہت زیادہ آتے ہیں، ان پڑھ تو رہے ایک طرف جو بچے پڑھ لکھ گئے ہیں ان کیلئے بھی کوئی مناسب روزگار نہیں ہے، اس طرح لوگوں کو اپنے علاقے میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی سخت شکایات ہیں،کہیں راستے اور سڑکیں نہیں،کہیں سیوریج کا مناسب بندوبست نہیں،کہیں گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں،کہیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، کہیں سکول نہیں، کہیں ڈسپنسری نہیں، لا قانونیت اس پرمستزادہے، لوگوںکو جان ومال کا کوئی تحفظ نہیں۔جس طرح 2018 کے انتخابات میں ایک اناڑی نے لوگوں کو سبز باغ دکھائے تھے وہ سب کے سب سراب ثابت ہوئے حد تو یہ ہے کہ گرین پاکستان کے نعرے لگاتے ہوئے جو اربوں کے کاغذی درخت لگائے تھے ایک فلڈ کے بعد ان کا بھی کہیں نام و نشان دکھائی نہ دیا، اسی پیٹرن پر آج پھر ایک نوجوان لمبی لمبی چھوڑرہا ہے کبھی کہتا ہے عوام کیلئے بجلی کے 300 یونٹ فری کر دوں گا، اتنے گھر اور اتنی نوکریاں دوں گا بلکہ پہلے سے موجود سرکاری نوکروں کی تنخواہیں ڈبل کر دوں گا،کیا اسے معلوم نہیں کہ ہماری قومی معیشت اس وقت کس قدر دگرگوں حالت میں آئی ایم ایف کے قرضوں تلے دبی ہوئی سسکیاں لے رہی ہے؟ لہٰذا لیڈروں کو اس حوالے سے بات کرنی چاہیے کہ ہم ایسے کون سے اقدامات کریں گے جن سے تباہ حال معیشت اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکےگی، اسی سے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات اور دہشت گردی جیسے ایشوز بھی زیر اثر آجائیں گے، امن عامہ کے ساتھ لبرل اور ٹالرنس سوسائٹی کے تقاضے بھی سامنے آئیں گے جہاں بیرونی انویسٹمنٹ کیلئے سازگار ماحول بن سکے،جہاں انڈسٹری کے ساتھ جدید تقاضوں کے مطابق تعلیمی ادارے تشکیل پا سکیں ،ہسپتال بن سکیں، نعرے بازی اور جنونیت پر مبنی کلچر کا خاتمہ ہو سکے،ہماری صنعت کے ساتھ ساتھ ہماری زراعت بھی پھل پھول سکے، زمینداروں کے ساتھ ہمارے کسانوں کے حالات بہتر ہو سکیں۔ اسی طرح ہمارا ایک بڑا قومی مسئلہ ہے کہ یہاں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو اس سے نہ صرف یہ کہ سماجی سطح پر لا قانونیت کا خاتمہ ممکن ہوگا بلکہ سیاسی استحکام بھی پیدا ہو سکتا ہے، تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں رہ کر خدمات سر انجام دے سکتے ہیں۔اچھی بات یہ ہے کہ مذہبی وجنونی نعروں میں بھی ٹھہراؤ آگیا ہے ایک وقت تھا جب انتخابی مہم میں مذہب کا بے دریغ استعمال ہوتا تھا اب حالت یہ ہے کہ خالصتاََ مذہبی پارٹیاں بھی عوامی مسائل کو ہی ووٹ لینے کیلئے فوکس کیے ہوئے ہیں ،البتہ ذاتیات پر حملے اب بھی ہو رہے ہیں۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کے تحت یہ اصول طے ہونا چاہیے کہ ایک دوسرے کے خلاف منافرت بھری تقاریر کی بجائے ہر کوئی قومی تعمیر و ترقی کا اپنا ویژن یا پروگرام پیش کرے،اس وقت اس حوالے سے سب سے بڑھ کر بے چینی سندھ کی پارٹی کے ایسے شخص کو ہے۔ تاہم ہمارے لوگ اتنے بھی بیو قوف نہیںہیںکہ یہاں پنجاب میں کھڑا ہو کر کوئی یہ کہہ رہا ہو کہ میں لاہور کو کراچی بنا دوں گا، حالانکہ پچھلے طویل برسوں میں کراچی کا جو حشر کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے، یوں مخالفین یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ سندھ میں 15سال حکومت کرنے والی پارٹی اپنے 15 منصوبے نہیں بتا سکتی،ان کے اپنے کرموں کی وجہ سے پنجاب میں انکی جو حیثیت رہ گئی ہے وہ سب پر واضح ہے، ن لیگ کی انتخابی مہم اگرچہ آئیڈیل قرار نہیں دی جا سکتی مگر اتنا ضرور ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کرنے سے گریز کر رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو نہ جانے کس سیانے نے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ کسی سے انتخابی الائنس کیے بغیر بھی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ اس وقت ہماری تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں علاقائی پارٹیاں بن کر رہ گئی ہیں کن صوبوں اور حلقوں میں کس کی کیا پوزیشن ہو گی اور ہمارا اگلا سیاسی سیٹ اپ کیا بنتا ہے، نیز پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کا سیاسی فائدہ کون اٹھائے گا۔

تازہ ترین