گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان دہشت گردی کا شکار ہے اور جانی ومالی نقصان اٹھا رہا ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز مختلف سمتوں سے ملک میں گھس کر لوگوں کو بموں اور گولیوں سے نشانہ بناتے اور ہمسایہ ملکو ں میں چھپ جاتے ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان کے اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں تنائو رہتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ چنانچہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے بارے میں انہیں مسلسل معلومات فراہم کرتا رہا ہے مگر ان واقعات میں کمی نہیں آرہی۔ بھارت کا کردار پاکستان میںدہشت گردی کو پروموٹ کرنے میں اہم ہے، وہ ایران، افغانستان اور پاکستان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ افغانستان اور ایران کے ذریعے پاکستان میںدہشت گردی کے واقعات کے پس منظر میں بھارت ہے۔ افغانستان سے کے پی کے میں دہشت گردی ہو رہی ہے جبکہ بلوچ قوم پرست دہشت گرد گروپس بلوچستان میں کارروائی کرکے ایران میں چھپ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ بلوچستان کا علاقہ ایران،پاکستان میں منقسم ہے۔ لہٰذا بلوچ قوم پرست ایرانی بلو چستان وسیستان میں اپنی کمیں گاہوں سے نکلتے ہیں اوردہشت گردی کرکے دوبارہ وہاں پناہ لے لیتے ہیں۔ ظاہر ہے ان گروپس کو بھارتی اشیر باد حاصل ہے اور بھارت اسلحہ اور پیسہ مہیا کرکے ان گروپس کوپاکستان کیخلاف استعمال کرتاہے۔بھارت اپنی کوشش میں کامیاب نظر آیاجب تاریخ میں پہلی بار گزشتہ دنوں ایرانی انقلابی پاسداران نے پاکستان سرحد پار کرکے پاکستان علاقے میں حملہ کرکے دو بچوں کو شہید کردیا اور تین بچیوں کو زخمی کردیا۔ یعنی دو برادر اسلامی ممالک آمنے سامنےآگئے تو اس حملے کے جواب میں پاکستان نے فوری طور پر اپنا سفیر ایران سے واپس بلا لیا اور ایرانی سفیر کو پاکستان آنے سے روک دیا۔ ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ طلب کرکے اس حملے کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ ایرانی انقلابی کمانڈر کے حملے سے ایرانی وزیر خارجہ بھی بے خبر نظر آئے کیونکہ حملے کے وقت وہ پاکستانی عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے ڈیوس میں ملاقات کر رہے تھے۔ پاکستان میں اس وقت ایک عبوری حکومت قائم ہے اور ملک تیزی سے انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسے وقت میں اسکےاندر گھس کرسویلین افراد کو قتل کرنا ایک بہت بڑا جنگی جرم ہے۔ جس کیلئے پاکستان کو فوراً اپنا رد عمل دینا پڑا۔ پاکستان کی مسلح افواج نے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ایران کے صوبہ بلوچستان اور سیستان میں موجود بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔یہ دونوں گروپ عرصہ دراز سے بلوچستان میں دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث تھے اور پاکستان نے متعدد بار ایرانی حکومت کو ان گروپس کے بارے میں اطلاعات فراہم کی تھیں۔ پاکستانی فوج نے مسلح قوم پرست گروپس کے خلاف اس آپریشن کو مرگ بر سرمچار کا نام دیا جو فارسی زبان اور بلوچی زبان کے دو الفاظ پر مشتمل ہے۔ مرگ بار کا مطلب ہے موت اور سرمچار کا مطلب گوریلا یا لڑنے والا۔ اس آپریشن میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ارکان دوستا عرف چیئرمین، باجڑ عرف سوغت، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی ہلاک ہو گئے۔ دونوں ملکوں کی افواج نے اپنے اپنے باغیوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔ دیکھنا یہ کہ د ہشت گردوں نے دو برادر اسلامی ممالک کی افواج کو ان کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان بننے کے بعد اس کو تسلیم کیا تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان برادرانہ و خوشگوار تعلقات کی بنیاد پڑی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔ پاکستان میں فارسی سیکھنے کا جنون تھا اور پچاس ساٹھ کی دہائی میں متعدد پاکستانی طلبا ایران میں تعلیم حاصل کرنے گئے اور ایران کے سابق بادشاہ رضا محمد پہلوی پاکستان متعدد بار تشریف لائے۔ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بھی دونوں ملکوں کے تعلقات مثالی تھے۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں داخل ہوکر خود کش بم دھماکے کرنیوالوں نے پاکستان کے عوام اور حکومت کو پہلے ہی تشویش میں مبتلا کر رکھا تھاکہ دہشت گردوں کا پیچھا کرتے ہوئے ایرانی انقلابی گارڈز نے پاکستان علاقے میں گھس کرجیش العدل پر حملہ کرنے کے بہانے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تنائو پیدا کر دیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں حالات کو بگڑنے کی بجائے پرانے برادرانہ تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں گی۔ چین، ترکی، روس اور یورپی یونین نے فوری طور پر دونوں ممالک کو حالات خراب ہونے سے بچانے کے اقدامات کرنے کی درخواست کی ہے۔دونوں ملکوں کے عوام بھی حالات کی بہتری کے خواہاں ہیں۔ دہشت گردی کے جال میں پھنس کر تعلقات خراب کرنا دشمن کے عزائم کی تکمیل کرنے کے مترادف ہے جس سے دونوں ملکوں کا نقصان ہو گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)