فہیم یاسین
ایک چھوٹی سی پہاڑی میں چوہوں کےکئی بل تھے، اس پر پودے بھی لگے ہوئے تھے۔ پودوں کے درمیان میں چوہوں کی بل دکھائی نہیں دیتےتھے۔ ان بلوں میں ایک بل ایک چوہیا کا بھی تھا۔ وہ اکیلی رہتی تھی۔ وہ کافی عقل مند تھی، اکثر چوہے اپنے مسائل لے کر اس کے پاس آتے اوروہ اپنی عقل وفہم کے مطابق حل بتاتی۔ اس کے مشورے اکثر چوہوں کی مشکل کو دور کر دیتے تھے۔ اسی لئےسب چوہے اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ برسات کے موسم میں بارشیں خوب برسیں، جس کے باعث کئی کیٹرے مکوڑے اور دوسرے جانور گھبرا کر ان بلوں کی طرف آ گئے۔
چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے تو چوہوں کی غذا بن گئے، جبکہ بڑے کیٹروں کو انہوں نے وہاںسے ماربھگا یا۔ انہی میں ایک چھوٹا کچھوا بھی شامل تھا جو جسامت میں چوہوں سے تھوڑا سا بڑا تھا۔ وہ ہر کسی کی بل میں گھس جاتا اور وہاں موجود ذ خیرہ کی گئی خوراک چٹ کر جاتا۔ چوہوں نے بڑی کوشش کی کہ اسے وہاں سے بھگا دیں، مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ کچھوا بڑا ہوشیار اور چالاک تھا۔ وہ چوہوں کی ہر چال کو نا کام بنا دیتا تھا۔ تنگ آ کر سب چو ہےعقل مند چوہیا کے پاس گئے اور اس سے مدد طلب کی۔
چوہیانے سب چوہوں کو تسلی دی کہ وہ کچھوے سے نجات کے بارے میں کچھ سوچتی ہے۔ چو ہےاس کی تسلی پر واپس لوٹ گئے ۔ کچھ دور پودوں کی آڑ میں کچھوا ان کی سب باتیں سن رہا تھا۔ کچھوے نے پہلے چوہیا کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔ وہ چپکے سےاس کے بل میں داخل ہو گیا۔ چوہیا، کچھوے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس سے کیسے جان چھٹرائی جائے؟ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے چہرے پر گہرا اطمینان پھیل گیا ،جیسے وہ کوئی فیصلہ کر چکی ہو ۔
کچھوا چوہیا کے بل میں داخل ہوگیا۔ چوہیا نے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ دوموٹے موٹے سرخ بیر طشت میں رکھ کر وہ اس کے پاس چلی آئی ۔ کچھوا حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ چوہیا نےکہا ،کہ اس وقت گھر میں اور کوئی چیز نہیں ورنہ خاطر تواضح زیادہ کرتی ۔ کچھوے نے دونوں سرخ بیر اٹھائے اور ایک ایک کر کے منہ میں ڈال لئے ۔ پیروں کا گودا بڑارسیلا اور میٹھا تھا۔ کچھوا نے سوچا کہ وہ اب یہیں رہے گا، کم از کم میٹھے بیر تو کھانے کوملیں گے ۔ کچھوے کو معلوم نہیں تھا کہ پیر کے اندر گٹھلی ہوتی ہے، جسے چوس کر پھینک دیا جا تا ہے۔
اس نے لالچ میں آ کر گٹھلی نگلنے کی کوشش کی تو وہ اس کے حلق میں جاپھنسی ۔ پھر کیا تھا؟ کچھوا تکلیف سے بلبلا اٹھا۔ اس سے نہ تو بولا جارہا تھا اور نہ ہی صحیح طرح سے سانس لی جارہی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد اسے سانس لینا دشوار ہو گیا۔ چوہیا یہ دیکھ کر بڑی پریشان ہوئی کہ اگر کچھوا اس کی بل میں ہی مر گیا تو اسے کون اٹھا کر باہر لے جائے گا ؟ اچا نک اس کے ذہن میں ترکیب آئی ۔اس نے کچھوےسے کہا کہ اگر وہ فوراً ڈاکٹر کے پاس چلا جائے تووہ اس کی کچھ مددکرسکتا ہے ۔ کچھوا تکلیف سے نہایت پریشان تھا۔ اس نے اشارے سے ڈاکٹرکا پتا پوچھا تو اس نےاسےراستہ سمجھایا۔کچھوا گرتا پڑتا اٹھا اور اس طرف چل پڑا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا حلق تھام رکھا تھا۔ راستہ بڑا خراب تھا۔ ہر طرف کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔ کچھوا اس سے بے خبر اپنی تکلیف کی شدت میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ چوہیا اس کا پیچھا کر رہی تھی ۔کچھوا جب کافی آگے بڑھ آیا تو اس کے پاؤں کیچڑ میں دھنس گئے۔ وہ حلق کی تکلیف کو بھول کر کیچڑ سے پاؤں نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ایک طرف گٹھلی حلق میں پھنسی ہوئی اذیت پہنچارہی تھی تو دوسری طرف دلدل آہستہ آہستہ اس کے جسم کونکلتی جارہی تھی۔
جب کچھوا دلدل میں بالکل غائب ہو گیا تو چوہیا نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس اپنے گھر لوٹ آئی ۔ کچھوے سے سب کی جان چھوٹ چکی تھی۔ برسات کا موسم بھی ختم ہو چکا تھا تیز دھوپ ہر طرف پھیل گئی تھی۔ اب چوہوں کو کسی کا خوف باقی نہیں رہا تھا۔ چوہیانے سب کو اپنے گھر بلا کران کی دعوت کی اور انہیں ہنس ہنس کر بتایا کہ اس نے کیا ترکیب لڑائی کہ کچھوا خود بخود اپنے پیروں سے چل کر دلدل میں جا گھسا یہ سن کر سب چوہوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور خوب ہلہ گلہ کیا۔