کراچی(طاہر عزیز۔۔اسٹاف رپورٹر) ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے کسی ادارے کی تیاری نہ تھی اور بارش نے پورے کراچی کو ڈبو دیا برساتی نالے کروڑوں روپے ہر سال صفائی کے نام پر خرچ ہونے کے باوجود بارش کا پانی نہ لے سکے میئر کراچی اور شہر کی انتظامیہ کے بلندو بانگ دعوے دھرے رہ گئے کمشر کراچی اورڈزاسٹر مینجمنٹ حکام صورتحال سے لاتعلق دکھائی دیئے.
تٖصیلات کے مطابق چند گھنٹوں کی بارش کا پانی اتوار کو دوسرے روز بھی سڑکوں اورچورنگیوں پر ندی نالوں کا منظر پیش کر رہا تھا چھٹی کے باوجود نظام زندگی معمو ل پرنہ آسکا نکاسی آب اور ٹر یفک کا نظام درہم برہم ہونے کے باعث ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بیشتر شہریوں نے اکیلے اور فیملیز کے ہمراہ سڑکوں پر گزاری پانی میں ڈوبی اور تیرتی ہوئی گاڑیوں کو بعض لوگ سٹرکوں پر چھوڑ کر پیدل روانہ ہوگئے ایک بڑی تعدادرات گئے اورصبح اپنے گھروں کو پہنچ سکی جبکہ بعض لوگوں نے رات اپنے دفاتر اور کاروبار کے مقام پر گزاری اس سے ایک بار پھر یہ بات عیاں ہو گئی کہ کراچی شہر کا انفرا اسٹرکچر انتہائی ناقص اور میٹرو پو لیٹن سٹی کہلانے کے لائق نہیں ہے یہ شہر اب تک بغیر کسی پلاننگ کے چل رہا ہے.
شہریوں کا کہنا تھا کہ ملک کے دیگر شہروں میں اس سے کہیں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں لاہور میں آئے روز ستر اسی سے سو ڈیڑھ سو ملی میٹر بارش معمول ہے لیکن دو تین گھنٹے بعد شہر نارمل اور ٹریفک رواں دواں ہوتا ہے.
اس کے بر عکس کراچی میں پچاس سے ستر ملی میٹر بارش نظام زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے لیکن اس صوبے میں برسراقتدار پارٹیاں اب تک اس کا کوئی مستقل حل نکالنے میں ناکام ہیں دعوے ضرور کئے جاتے ہیں لیکن ہر بارش میں قلعی کھل کر سامنے آجاتی ہے اور لوگوں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے گزشہ رات جس ازیت میں شہریوں نے گزاری کوئی ان سے پوچھ کر دیکھے.
عمر رسیدہ افراد اپنے موٹر سائیکلیں پانی جس طرح گھسیٹ کر لے جا رہے تھے لیکن کوئی سرکاری ادارہ ان کی مدد کرتے دکھائی نہیں دیا بعض مقامات پر نوجوان لوگوں کی مدد کرتے ضرور نظر آئے پیشن گوئی ے باو جود کمشنر کراچی کے آفس میں کوئی کنٹرول روم یا ڈیسک قائم نہیں کی گئی پرو نشل ڈزاسٹر مینجمنٹ کے اہلکار غائب تھے کے ڈی اے ،واٹر بورڈ اور ٹاونز کا عملہ بھی اس صورتحال سے نمٹنے میں تیار نظر نہ آیا .
دوسری طرف اتوار کے روز کراچی میں ہونے والی بارش نے پہلے سے جمع پانی میں اضافہ کر دیا جناح اسپتال ،این آئی سی وی ڈی کی سڑکوں پر بارش کے پانی نے تالاب کی شکل اختیار کر لی جس سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔