علامہ اقبال نے اپنی نظم مرزا غالب میں غالب کو خراج ِ تحسین یوں پیش کیا ہے:
آہ توُ اُجڑی ہوئی دِلّی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمر میں تیرا ہم نَفَس خوابیدہ ہے
ویمر دراصل جرمنی کا ایک شہر ہے جہاں جرمن زبان کے عظیم شاعر ، ادیب اور دانش ور گوئٹے کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس جرمن شاعر نے نہ صرف جرمن شاعری بلکہ پورے یورپ کے ادب اور فلسفے پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اقبال نے غالب کی تعریف کرتے ہوئے انھیں گوئٹے کا ہم خیال اور ہم پلہ قرار دیا ہے۔
لیکن غالب کو بہت سی مخالفانہ تنقیدی آرا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ غالب کی شاعری پر ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ یہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ غالب کے ایک معاصر حکیم آغا جان عیش دہلوی نے اپنے ایک مشہور قطعے میں غالب کی شاعری پر یوں طنز کیا ہے :
اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے اک کہے اور دوسرا سمجھے
کلام ِ میر سمجھے اور زبان ِ میرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
اس اعتراض کی حقیقت کیا تھی؟ اس کو یوں دیکھیے کہ غالب کے عیش دہلوی جیسے معترضین کو آج بہت کم لوگ جانتے ہیں بلکہ محققین اور نقادوں کو چھوڑ کراکثر لوگوں نے ان کا نام بھی نہیں سنا ہوگا، جبکہ غالب کا نام آج اردو کے عظیم ترین شاعروں میں شامل ہے۔
غالب کے حصے میں تنقید و تنقیص بھی آئی اور توصیف و تحسین بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غالب کے فن اور شاعری کے ضمن میں کیا کیا لکھا گیا۔ غالب کا ذکر سب سے پہلے جس کتاب میں ملتا ہے اس کا نام عمدہ ٔ منتخبہ ہے جو اعظم الدولہ میر محمد خاں سروَر نے لکھی تھی اور اسی مناسبت سے اس فارسی کتاب کا ایک اور نام تذکرہ ٔ سروَر بھی ہے اور اس وقت غالب کی عمر صرف چوبیس (۲۴) برس تھی۔اندازہ ہے کہ اس کتاب کی تکمیل ۱۸۲۱ء میں ہوئی ۔
ایک تذکرہ عیار الشعرا کے نام سے خوب چند ذکانے لکھا اور بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ۱۸۳۲ء کے لگ بھگ مکمل ہوا ۔ اس میں غالب کا مختصر ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد غالب کا ذکر تذکرۂ گلشنِ بے خار (مطبوعہ ۱۸۳۷ء) میں ملتا ہے جو نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ کا فارسی میں لکھاہوا تذکرہ ہے۔وہ غالب کی بہت تعریف کے بعد لکھتے ہیں کہ بہت عرصے سے اردو میں شعر نہیں کہتے۔لیکن قطب الدین باطن نے اپنے تذکرے گلستانِ بے خزاں یا نغمۂ عندلیب (۱۸۴۵ء)میں شیفتہ کے ساتھ غالب پر بھی سخت تنقید کی۔
مولوی کریم الدین نے اپنے تذکرے گلدستۂ نازنیناں (۱۸۴۵ء) میں غالب کے بارے میں لکھا کہ خاصے عرصے سے اردو میں شاعری ترک کردی ہے اور اب فارسی میں شعر کہتے ہیں۔ سرسید احمد خان نے آثار الصنادید (۱۸۴۷ء)میں غالب کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غالب نے ’’دوسرے شاعروں کی شہرت کو منسوخ کردیا‘‘۔ میرزا قادر بخش صابر کا تذکرہ گلستانِ سخن (۱۸۵۵ء )کے نام سے ہے اور اس میں انھوں نے غالب کی بہت تعریف کی ہے۔
اگر تذکروں کو نظر انداز کردیا جائے اور غالب نے فارسی کی معروف لغت برہان ِ قاطع پر جو اعتراضات کیے تھے اس کے جواب میں غالب پر جو تنقید کی گئی اسے بھی چھوڑ دیا جائے تو غالب پر ادبی تنقید کے سلسلے کا آغاز۱۸۶۹ء میں ہرگوپال تفتہ سے ہوتا ہے۔ اس طرح غالب کے فن کی تحسین وتنقید کو ڈیڑھ صدیاں گزر چکی ہیں۔
منشی ہرگوپال تَفتہ (۱۸۷۹ء۔۱۸۰۰ء؍۱۷۹۹ء)غالب کے چہیتے شاگرد تھے اور غالب انھیں ’’مرزا تفتہ ‘‘ کہا کرتے تھے ،حالانکہ وہ مرزا نہیں تھے ۔تَفتہ ان کا تخلص تھا۔تَفتہ (’ت ‘پر زبر کے ساتھ)کے معنی ہیں جلتا ہوا، سلگتا ہوا، مراداً: بے قرار۔ مرزا تفتہ ہی کی ایک تحریر سے غالب پر تنقید و تحسین کا باقاعدہ یا رسمی آغاز ہوا۔ یہ مرزا تفتہ کا ایک توصیفی دیباچہ تھا جو انھوں نے اردوئے معلی پر لکھا تھا۔ہم سب جانتے ہیں کہ اردوئے معلی غالب کے اردو خطوط کا دوسرا مجموعہ تھا جو چھَے (۶) مارچ ۱۸۶۹ء کو چَھپ کر منظرِ عام پر آیا، یعنی غالب کی وفات کے انیس (۱۹) روز بعد۔
تفتہ کے بعددو فارسی کتب میں غالب کا تذکرہ ملتا ہے ،یعنی صدیق حسن خاں کی شمعِ انجمن (۱۸۷۶ء) اور نور الحسن خاں کی طُور ِ کلیم (۱۸۸۱ء)میں۔اردو شعرا کے کچھ اورتذکروں اور کتابوںمیں بھی غالب کا ذکر آتا ہے ، مثلا ً امیر مینائی کے انتخاب ِ یادگار (۱۸۷۹ء)،محمد حسین آزاد کی آب ِ حیات (۱۸۸۰ء)، صفیر بلگرامی کے تذکرہ ٔ جلوۂ خضر (۱۸۸۴ء) اور امداد امام اثر کی کتاب کاشف الحقائق (۱۸۹۷ء)میں غالب کے فن پر کچھ تنقیدی آرا ملتی ہیں۔ لیکن صحیح معنوں میں جس کتا ب میں پہلی بار غالب کے فن اور شخصیت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا وہ غالب کے ایک اور شاگرد الطاف حسین حالی کی یادگار ِ غالب(۱۸۹۷ء) ہے۔
حالی کی کتاب کے بعد بیسویں صدی میں جن نقادوں نے غالب کے فن پر لکھا ان میں علامہ حیرت بدایونی، پیارے لال شاکر میرٹھی اور عبدالماجد دریا بادی شامل تھے۔ لیکن جس ادبی کام کو تنقید ِ غالب میں ایک اہم سنگِ میل سمجھا جاتا ہے وہ عبدالرحمٰن بجنوری کا مقدمہ ہے جو دیوان ِ غالب پر ۱۹۲۱ء میں لکھاگیا اور بعد ازاں کتابی صورت میں شائع ہوا۔یہ رومانی انداز کی تنقید ہے جس میں بجنوری نے غالب کے کلام کو اتنا سراہا ہے کہ اسے وید مقدس کے ساتھ ہندوستان کی دوسری الہامی کتاب قرار دیاہے۔
سید عبدالحئی کی گل ِ رعنا بھی ۱۹۲۱ء میں شائع ہوئی اور اس میں بھی غالب کا تذکرہ موجود ہے۔ڈاکٹر سید عبداللطیف نے انگریزی میں غالب کی زندگی اور ان کی اردو شاعری پرایک کتاب لکھی جو ۱۹۲۸ء میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی اور اس کا نام تھا
Ghalib : A Critical Appreciation
of His Life and Urdu Poetry
شیخ محمد اکرام ایک معروف تاریخ داں اور نقاد تھے، ان کی کتاب غالب نامہ ۱۹۳۶ء میں شائع ہوئی۔ اس میں انھوں نے غالب کی شاعری کے چار ادوار قائم کیے۔ غالب کے فن کو سمجھنے اور سراہنے کا یہ سلسلہ جاری رہا اور آزادی کے بعد غالب پر لکھی گئی تنقیدی و تحقیقی کتابوں اور مضامین و مقالات کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور بڑے بڑے محققین اور ناقدین نے غالب پر لکھا۔تمام لکھنے والوں کے نام یہاںدینا ممکن نہیں ہے۔
مختصراً یہ کہ ہندوستان میں مثلاً امتیاز علی خاں عرشی، قاضی عبدالودود، آلِ احمد سرور، احتشام حسین، خواجہ احمد فاروقی، نثار احمد فاروقی، گیان چند،مسعود حسن رضوی ادیب،رشید حسن خان، مالک رام، اسلوب احمد انصاری، محمد حسن ، حنیف نقوی ، مختار الدین احمد، پروفیسر نذیر احمد اور پاکستان میں مثلاً حمید احمد خان، غلام رسول مہر،حامد حسن قادری، وحید قریشی، نیاز فتح پوری ،یوسف سلیم چشتی،خلیفہ عبدالحکیم، فرمان فتح پوری، عبادت بریلوی،شیخ محمد اکرام،عمر مہاجر،وزیر الحسن عابدی،خلیل الرحمٰن دائودی، شوکت سبزواری، مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی، مسلم ضیائی، سید عبداللہ،وقار عظیم ، قدرت نقوی ،معین الرحمٰن، تحسین فراقی وغیرہ نے غالب فہمی کے باب میں اپنی تحریروں سے وقیع اضافے کیے۔
یہ ذکر ادھورا رہ جائے گا اگر غالب شکنی کی بات نہ کی جائے ۔بعض لکھنے والوں نے غالب کے خلاف بھی لکھا ۔کچھ نے غالب کے کلام کو مہمل تک کہہ دیا۔ قاطع برہان پر غالب کی تنقید کے جواب میں ایک ہنگامہ اٹھا تھااور اس پر دونوں طرف سے کتابیں لکھی گئیں ۔ اس کے بعد قطب الدین باطن کی تنقید ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ محمد حسین آزاد نے آب ِ حیات میں غالب کو گھٹانے اور اپنے استاد ابراہیم ذوق کو بڑھانے کی کوشش کی اگرچہ وہ غالب کی تعریف بھی کرتے ہیں اور کہیں کہیں تعریف کے پردے میں تعریض بھی کرتے ہیں۔
امدامدامام اثر نے لکھا کہ غالب قصیدہ گوئی کے لیے زیادہ موزوں تھے اور ان کی فارسی غزلیں غزل گوئی کی شان سے عاری ہیں۔ اصل غالب شکن تو مرزا یاس یگانہ چنگیزی تھے اور ان کی کتاب کا نام بھی غالب شکن ہے جس میں انھوں نے غالب پر سخت تنقید کی اوراس کے پردے میں خود کو بڑا شاعر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بلکہ غالب شکن کے بعد ہی سے غالب شکنی کی اصطلاح رائج ہوئی۔ڈاکٹر عبداللطیف کی انگریزی کتاب میں بھی غالب پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ نیاز فتح پوری غالب کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان پر اعتراضات بھی کرتے ہیں۔
آج اکیسویں صدی میں بھی غالب پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے ۔ کیونکہ:
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز ِ بیاں اور
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔
خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر، روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی