آج صبح اخبار کی سرخیوں پر نظر پڑی تو دل باغ باغ ہوگیا ۔حکومتی مسئلہ ’’فیثاغورث‘‘جو طے ہونے میں نہیں آ رہا تھا بالآخر طے ہو گیا۔یعنی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور صدر پاکستان آصف علی زرداری ہوں گے۔ گویا مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں ایک رشتے میں بندھ گئے ہیں تاہم یہ رشتہ نکاح نہیں متعہ سے ملتا جلتا ہے کہ اس کے نتیجے میں جو کچھ ’’برآمد‘‘ ہو گا اس کی ذمہ داری کا تعین بہت مشکل ہوگا۔
چلیں فی الحال یہ خود کا مسئلہ ہے مجھے تو بہت سے دوسرے امور میں زیادہ دلچسپی ہے مثلاً یہ کہ شہباز شریف حلف اٹھاتے وقت وہ شیروانی پہنیں گے جو انہوں نے گزشتہ سولہ ماہ کی وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھانے کیلئے سلوائی تھی یا اس بار وہ نئی شیروانی سلوا ئیں گے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ وہ پرانی شیروانی ہی سے کام چلائیں گے کہ گزشتہ ہفتے سہیل وڑائچ نے نواز شریف اور شہباز شریف کا موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف شاہ خرچ ہیں جبکہ شہباز شریف ’’جزرس‘‘ ہیں یہ ’’جزرس‘‘ کا لفظ بہت مہذب انداز میں اس وقت کہا جاتا ہے جب کسی کے بارے میں یہ کہنا ہو کہ وہ فضول خرچ نہیں ہے بلکہ جہاں خرچ کرنا ہو وہ وہاں خرچ کرنے پر پہلے ہزار مرتبہ سوچے ،یہ ساری تشریح تو میں نے ادب کے ایک طالب علم ہونے کی وجہ سے کی ہے ورنہ ہم ’’پنجابی ڈھگے‘‘تومنہ پھاڑ کر ایسے شخص کو کنجوس کہہ دیتے ہیں۔میں ذاتی طور پر شہباز شریف کی کفایت شعاری کے حوالے سے بہت کچھ جانتا ہوں وہ لندن میں قیام کے دوران ملبوسات کی خریداری اس وقت کرتے تھے جب سیل لگی ہوتی تھی۔ وہ وہاں ہوتے تو انڈرگرائونڈ ٹرین میں سفر کرتے تھے پاکستان میں بھی ایک دفعہ میں نے ان کا بیڈروم دیکھا تھا جو میرے بیڈروم ایسا ہی تھا سردیوں کے دن تھے اور وہاں ہیٹر آن کیا گیا تھا ان کا یہی رویہ قومی خزنے کے حوالے سے تھا وہ ایک ایک پائی بھی سوچ سمجھ کر خرچ کرتے تھے حتیٰ کہ بیرون ملک کسی سرکاری دورے پر جاتے اوروہاں اپنے ساتھ کچھ صحافی لے جاتے تو ان کا سارا خرچ سرکاری خزانے سے نہیں اپنی جیب سے ادا کرتے تھے ۔نواز شریف اور شہباز شریف کے طرز زندگی میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر یہ دونوں بھائی قومی خزانے کو قوم ہی کی امانت سمجھتے ہیں چنانچہ ان پر کرپشن کا الزام نہیں لگایاجا سکتا۔
مگر میں کہیں اور نکل گیا بات تو یہ ہو رہی تھی کہ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہوئے نئی یا پرانی شیروانی پہنیں گے؟ اس حوالے سے مرضی تو وہ اپنی کریں گے تاہم میری خواہش ہے کہ وہ سولہ ماہ والی پرانی شیروانی کی بجائے نئی شیروانی پہنیں کہ پرانی میں تو اب تک کئی سلوٹیں پڑ چکی ہوں گی۔ ہوسکتا ہے کہ چائے پیتے یا کھانا کھاتے وقت اس پر چائے یا کھانے کا کوئی دھبہ پڑا ہو یہ شیروانی ڈرائی کلین تو کرائی جاسکتی ہے مگر کیا حرج ہے کہ نئے دور کا آغاز نئی شیروانی سے کیا جائے۔ویسے بھی ہم لوگوں کا حافظہ بہت تیز ہے وہ پرانی شیروانی ہمارے حافظے میں محفوظ ہو گی سو میری مانیںتو شہباز شریف اپنے نئے دور کا آغاز نئی شیروانی سے کریں، عوام کو یہ چینج اچھی لگے گی۔
دوسری طرف مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے نامزد کیا جا چکا ہے اور اب اس حوالے سے انہیں سرکاری پروٹوکول بھی دیا جا رہا ہے اور پارٹی کا یہ فیصلہ مریم نواز کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے کہ لوگوں کو شہباز شریف کی شاندار کارکردگی ابھی تک نہیں بھولی انہوں نے اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر ترقیاتی کاموں کے آغاز اور تکمیل کیلئے دن رات ایک کر دیئے ۔ان کا یہ دور تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اربوں روپوں کے فنڈز ان منصوبوں پر خرچ ہوئے مگر ان کے حریف بھی مالی بدعنوانی کا الزام تک نہیں لگا سکتے ۔ان کے بعد محسن نقوی بطور نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے اور انہوں نے شہباز شریف کے کام کی اسپیڈ کو برقرار رکھا اور عوام میں مقبولیت حاصل کی۔ اس لیے مریم نواز کو اپنی صلاحیتیں منوانے کیلئے ایک بہت سخت قسم کی زندگی گزارنا ہو گی۔مریم کی سیاسی تربیت پاکستان کے سینئر ترین سیاست دان نواز شریف نے کی ہے جنہیں اب سیاست دان نہیں مدبر کہا جانا زیادہ بہتر ہے ۔مریم جیل کی عقوبتیں بھی برداشت کر چکی ہیں وہ اس وقت عوام کی ایک بہت مقبول شخصیت ہیں لوگ ان کے جلسوں میں جوق در جوق آتے تھے کسی جلسے میں ان کا نام ہی جلسے کی کامیابی کیلئے کافی تھا وہ کارکنوں سے بھی ملتی ہیں اور اب انہیں اس دائرے کو محدود نہیں ذرا زیادہ اوپن رکھنا ہو گا ،انہیں پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کا اعزاز مل رہا ہے مجھے یقین ہے وہ اس اعزاز کا خود کو حقدار ثابت کریں گی۔مریم نواز سے مجھے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اپنے والد نواز شریف اور اپنی والدہ کلثوم کی آغوش تربیت میں پلی ہیں وہ پنجاب کے عوام کو مایوس نہیں کریں گی پتہ نہیں مجھے کیوں یقین ہے کہ ایسا ہی ہو گا۔
اور اب ہمارے مجوزہ نئے صدر پاکستان آصف علی زرداری، تو شاید آپ کو عجیب لگے کہ میں ان سے بھی بہت امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہوں وہ ایک تجربہ کار سیاست دان ہیں انہوں نے بہت مشکل وقت میں ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا میں امید کرتا ہوں کہ وہ نئی حکومت اور پاکستان کو کسی سیاسی نفاق کا نشانہ نہیں بننے دیں گے بلکہ اگر کوئی مسئلہ پیدا بھی ہوا تو، اور یہ ناممکنات میں سے نہیں ہے، وہ اپنے تدبر سے اسے حل کرنے میں معاون ثابت ہوں گے انسان کو بہتری کی توقع رکھنا چاہئے اور میرا یہ سارا کالم اسی توقع کی بنیاد پر ہے۔