• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دور جدید کے بدلتے ہوئے منظر نامے میں مصنوعی ذہانت امید کی کرن کے طور پر ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے جو کہ ہماری طبی تشخیص اور علاج تک پہنچنے کے طریقوں میں نیا انقلاب لانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت ایک ایسی تیکنیکی تخلیق ہے، جس میں کمپیوٹر یا مشین کے ذریعے انسانی ذہانت جیسی صلاحیت پیدا کر کے طب کے شعبہء تحقیق اور دیگر شعبوں میں ترقی کر کے آگے بڑھا جا سکتا ہے اور اگر اسے نارمل کمپیوٹر کے بجائے کوانٹم کمپیوٹر یعنی تیز رفتار مقداری کمپیوٹر کے ساتھ استعمال کیا جائے تو زندگی کے تمام شعبوں میں ناقابل یقین ترقی ممکن ہے۔ نئی آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کی مدد سے روایتی طبی کلچر بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور نتائج جلد ہی طب، حیوانیات، ادویات اور دیگر طبی شعبوں میں نمایاں ہوں گے۔

مصنوعی ذہانت کا استعمال طبی دنیا میں نہایت کارآمد ثابت ہو رہا ہے جیسے کہ اس کے استعمال سے شعبہ ریڈیولوجی، پیتھالوجی، انڈوسکوپی اور سرجری میں مرض کی تشخیص کو اعلی درجے اور ممکنہ حد تک کم انسانی ضرورت کے ساتھ فروغ پانا شروع ہو گیا ہے۔ اسی طرح اس منفرد تخلیق کو انسانوں اور ہر قسم کے جانوروں کی تحقیق کے ساتھ ادویات کی جدید اور کارآمد تیاری میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ 1950 ءمیں ایلن ٹیورنگ جسے بابائے مصنوعی ذہانت بھی کہا جاتا ہے، نے انکشاف کیا کہ مصنوعی ذہانت انسانی دماغ سے زیادہ پیچیدہ مگر ہم پلہ سائنسی ممکنات میں سے ہے۔ 

حال ہی میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس نے سال 2024 کو مصنوعی ذہانت کا سال قرار دیا ہے جو کہ یقینا روایتی کمپیوٹر، سپر کمپیوٹر اور جدید موبائل فونز کے بعد ایک جدید پیش رفت ہے ۔لہٰذا اگر اے آئی کی(AI) شمولیت سے روایتی طبی تحقیق علاج اور ادویات کی تیاری برقرار رہی تو نئے اُفق ایاں ہوں گے ،جس سے طبی علاج انسانی معاشرے میں اپنے عروج کی نئی رفتار پر ہوگا۔

اےآئی اور تیز رفتار کوانٹم کمپیوٹر کے ملاپ سے طب اور ادویات کے شعبے میں مزید کئی انقلابی اقدامات دنیا کو اپنی گرفت میں لیتے نظر آرہے ہیں اور ان روایتی طریقوں میں اے آئی کی مطابقتی ضرورت دوسرے شعبوں سے اونچی متاثر کن اور گہری جگہ پر ہے ،جس سے بہتر اور فوری طبی تشخیص ممکن ہو رہی ہے جیسا کہ ہڈیوں جوڑوں سے لے کر آنکھوں کی پتلیوں اور پردے کی بیماری کا ابتدائی سطح پر پتہ لگایا جانا اور اسی طرح طبی تشخیص کے دوسرے اور روایتی طریقوں کے مقابلے میں وقت کی بچت اور نتیجہ خیزی میں اضافے کے ساتھ مصنوعی ذہانت سے ریڈیالوجی (ایکس رے/ الٹراساؤنڈ /ایم ار آئی) اور ان کی مزید پیچیدہ جہتوں کی افادیت اور تشخیصی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں ٹی بی، بریسٹ کینسر اور کینسر کی مزید اقسام کے لیے مصنوعی ذہانت سے ایکسرے میں مختلف دھبوں کی زیادہ گہرائی سے تحقیق و تشخیص ممکن ہوئی اور اسی طرح ریڈیا لوجی میں ماہرین کی بین الاقوامی سطح پر کمی ایک مزید مسئلہ ہے لیکن اس کی وجہ سے عکسی معائنہ کی آن لائن رپورٹنگ بہت تیزی سے مقبول ہو رہی ہے ،جس سے ماہرین گھر بیٹھے آن لائن رپورٹ بنا کر کثیر معاوضہ کما رہے ہیں۔ 

جب کہ اگر ریڈیالوجی اور پیتھالوجی میں معائنے کے تانے بانے کو جوڑا جائے تو بہت عمدہ تشخیص زیادہ مہارت اور کم وقت میں ہونے کی نوید ہے۔جیسا کہ پیتھالوجی، سرطان اور اس کی مختلف اقسام کی خلیاتی تبدیلیاں دیکھے جانے والے بہتر خوردو بینی عکسی جائزے سے آنتوں، گردوں، پھیپڑوں اور دماغ کے دائمی اور پیچیدہ امراض میں کوانٹم کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے بہت اعلیٰ پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے۔

اسی طرح غذائی اندرونی معائنہ ( اینڈوسکوپی)آنتوں کی بے ضرر خونی اور بادی رسولیاں ، خوراک کی نالی اور آنتوں کے معائنے میں مصنوعی ذہانت کی مدد سے بہترین تشخیص عکسی معائنہ و جائزہ اور علاج کی منصوبہ بندی کے لیے روایتی اینڈوسکوپی کے مقابلے میں تشخیصی ترقی یافتہ وسعت کم وقت اور زیادہ مہارت کے ساتھ مددگار ثابت ہوگی ۔لہٰذا مصنوعی ذہانت معدے اور گیسٹرو انٹرولوجی کے ماہرین کے ساتھ ایک رضاکار ساتھی کی طرح کھڑی نظر آتی ہے۔

طبی تشخیص کی طرح مصنوعی ذہانت کا طبی علاج و جراحی میں بھی بہت عمدہ مستقبل نظر آتا ہے۔ حالاں کہ طبی علاج و لیپروسکوپک سرجری اور روبوٹک سرجری سے میڈیکل کے شعبے میں پہلے ہی قابلِ رشک پیش رفت ہوئی ہے، مگر اسی طرح محفوظ اور کم وقت میں زیادہ مہارت والی سرجری میں معدہ، آنت، گردے، پھیپھڑے، پروسٹیٹ کے آپریشن، کینسر کی تشخیص، دوائی کے ساتھ اس کی محدودیت، جسم سے علیحدگی برائے علاج میں بہت خوش آئند پیش رفت نظر آئی ہے۔ یہ بھی ممکنات میں نظر آتا ہے کہ مزید متعدی اور غیر متعدی بیماریاں جیسے کہ دل دماغ کے پیچیدہ امراض، بچوں کے پیدائشی امراض اور خاندان میں نسل در نسل چلنے والی بیماریوں میں جینیٹک میوٹیشن (وراثتی بنیادی تبدیلی) میں مصنوعی ذہانت اپنا کام کرے اور تشخیص و علاج کا پلہ بھاری ہو۔

اسی طرح تھری ڈی پرنٹنگ کو مصنوعی ذہانت کے ذریعے بروئے کار لا کے سی ٹی اسکین اور ایم ار آئی کے ڈیٹا سے ڈینٹل آرتھوپیڈک، وریدی (ویسکیولر) اسپائن (ریڑھ کی ہڈی) اور تولیدی اعضا کی سرجری کے ساتھ ساتھ کینسر کی سرجری میں مزید رہنمائی حاصل کی جا سکے گی جب کہ آرگینک بایو انجینئرنگ سے تیکنیکی طور پر کار آمد اعضاء جیسے والز کی تبدیلی وغیرہ میں استعمال کیاجا سکے گا۔

اسی طرح بے ہوشی قبل از جراحی یعنی انستھیزیا کے عمل میں نگرانی، معاونت، دوائی، مدت و مقدار کا کنٹرول، بے ہوشی کے مضر اثرات کے بارے میں پیش بینی، آپریشن کے دوران درد میں کمی، آپریشن تھیٹر کے انتظامی کنٹرول، پھر بے ہوشی سے واپسی اور ریکوری با مکمل صحت یابی کے ساتھ ڈسچارج تک مصنوعی ذہانت کی اعانت سے مزید بہتری ہوتی نظر آتی ہے۔

میڈیکل علاج سے متعلق دوائیاں بنانا اور فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایک قدیم فن ہے۔چینی و ہندوستانی تہذیب اور اسلامی تاریخ میں روایتی طبی علاج سے اب نیوٹراسیوٹیکل، ہومیوپیتھک، ایلوپیتھک اور نئی قسم کی ادویات کی تیاری کے عمل میں اگر مصنوعی ذہانت کا اضافہ کیا جاتا ہے تو ادھوری رہ جانے والی تحقیقات، کلینیکل ٹرائلز، دوائیوں کی مارکیٹنگ اور دوائیوں کے مضر اثرات کے بارے میں کم وقت اور مکمل مہارت کی پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے۔مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے امتزاج سے دوائیوں کے روایتی پیداواری طریقوں اور ان کی تخلیق و ایجاد میں زبردست تبدیلی واقع ہو چکی ہے اور اس نئی تیکنیکی معلومات سے کینسر کی دوائیوں اور ویکسین کی تیاری میں کم خرچ اور کم وقت میں کتابی سطح اور کثیر افادیت کی بلندی نظر آتی ہے۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ کرونا ویکسین کی تیاری میں سائنٹیفک ٹیکنالوجی اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی بھرپور شراکت رہی ہے۔ اسی طرح مصنوعی ذہانت سے ایسی پیش رفت ہوئی ہے ،جس میں بے انتہا چھوٹے مالیکیول یا ذرّہ میں نینو ذرّات جو کہ ایک خلیے کے طور پر موٹائی میں ایک ملی میٹر سے ایک ملین چھوٹائی میں وجود میں آئے ہیں۔ مثال کے طور پر پیپر شیٹ کی موٹائی ایک لاکھ نینو میٹر کے برابر ہوتی ہے۔ اسی طرح تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے کئی قسم کی دوائیوں میں نینو پارٹیکل کے مختلف درجوں کی تہوں میں اور پھر اس میں آخری کیمیائی کوٹنگ اور اخراج کے وقت اور رفتار کا تعین کرنے سے اس کی علاجی افادیت میں زیادہ وسعت ہوگی۔

طبی تعلیم اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے چند تجاویز

اگر مختلف ادوار میں ترقی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پہلے بھانپ کا انقلاب، پھر برقی انقلاب اور اب دور حاضر میں سائنس و ٹیکنالوجی کا انقلاب اپنے عروج کی نئی بلندیوں کو تیزی سے چھوتا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت سامنے آئی ہے جو کہ اب سائنٹیفک ٹیکنالوجی کے ملاپ سے ایک منفرد انقلابی دور کا آغاز ہے ۔اس منفرد سائنسی ترقی کو اگر طبی تحقیق اور تعلیم کے ساتھ ضم کر دیا جائے تو زر مبادلہ کمانے کا بڑا موقع ہے اور دنیا میں ہمارے ملک کو ایک نئی حیثیت و بلندی حاصل ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں میڈیکل کی تعلیم کو امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ آج کے دور میں بھارتی ڈاکٹرز اورپیرامیڈکس بہت بڑی اور نمایاں تعداد میں امریکا کا میڈیکل اور ہیلتھ سسٹم سنبھالی ہوئے ہیں اور ان کی تعداد میں دن بدن مزید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ یہ نہیں کہ پاکستانی میڈیکل ماہرین اور دوسرا پیرامیڈکس عملہ وہاں موجود نہیں لیکن امریکا، انگلینڈ، گلف اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں بھارتی طبی ماہرین پورے ہیلتھ سسٹم پر چھا رہے ہیں، اسی طرح علاج اور سرجری کے لیے بھی امریکا، انگلینڈ، سنگاپور اور دبئی کے بعد اب بھارت کا ہی نمبر آتا ہے۔ 

اس کی وجہ بھارت کا میڈیکل اور ہیلتھ کے شعبے میں تیز رفتار ترقی کے نتیجے میں آنے والا کم خرچ اور SOPs کے ساتھ ہونے والا بہترین علاج معالجہ اور ٹرانسپلانٹ ہےاور تیزی سے سائنٹیفک ترقی بالخصوص سافٹ ویئر، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ڈیجیٹل انٹیلیجنس اور مزید یہ کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی)، کوانٹم کمپیوٹر کے امتزاج سے ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔

یاد رہے کہ کوانٹم کمپیوٹر بہت تیز رفتاری سے کئی سالوں کا کام منٹوں میں کر سکتا ہے جو کہ ایک سوپر کمپیوٹر کو انجام دینے میں کئی سال لگ جائیں اور اگر اس میں مصنوعی ذہانت کا تڑکا لگے تو سالوں کا پیچیدہ کام سائنٹیفک کی مدد سے منٹوں میں کیا جا سکتا ہے۔ عرض یہ کہ کچھ ہی عرصے میں درمیانی درجے کےکوانٹم کمپیوٹرز تجارتی طور پر دستیاب ہوں گے۔ 

سو اگر عصری ذریعہء تعلیم و نصاب کے ساتھ طبی تعلیم و پیشورانہ صلاحیتوں میں ابتدائی مراحل سے ہی اس سائنٹیفک ٹیکنالوجی کو استوار نہ کیا گیا تو ہمارے غیر تربیت یافتہ اور فرسودہ کتابی و تعلیمی افرادی قوت کا کوئی طلبگار نہ ہوگا۔ ہماری موجودہ ملکی آبادی 240 ملین نوجوان افرادی قوت جو کہ 35 سال سے کم عمر یعنی 50 سے 60 فی صد آبادی کا حصہ ہے اور اگر ہم اس بڑے حصے کو دور حاضر کی ضرورت کے مطابق جدید ٹیکنالوجی بالخصوص آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی تربیت دیں تو ایک اچھا زر مبادلہ کمانے کے ساتھ ساتھ نئے انقلابی دنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔

پی ایم ڈی سی(PMDC) اورڈرگ ریگولیرٹی اتھارٹی آف پاکستان(DRAP) کو پرانے روایتی سرخ فیتے کی نظر کیے بغیر شعبہ تعلیم اورادویات سازی کے ماہرین کو انٹرنیشنل تربیت ومشاہدہ کے تجربے سے آراستہ کر کے ہر صوبے میں تعینات کیا جائےاور ان کی صلاحیتوں کو آبادی کے نوجوانوں اور طلبا تک پہنچایا جاسکے ۔اس کے علاوہ ہر صوبے کا پی ایم ڈی سی ،ڈریپ اورہائیر ایجوکیشن کمیشن(HEC) صرف جدید ٹیکنالوجی سے مرتب ہو۔

ہمارے ملکی رہنماؤں کی ترجیحات میں تعلیم بالخصوص دور حاضر کی ضرورت مصنوعی ذہانت کے ساتھ اول نمبر پر رکھی جائے تو یہ ہمارے مستقبل کے لیے ایک بہترین نوید ہے۔ حقیقی طبی ڈیٹا جسے ریل ٹائم ڈیٹا کہا جاتا ہے۔ اگر اس کو نادرہ کے ساتھ ضم کر دیا جائے تو مصنوعی ذہانت کے ذریعے آنے والی بیماریوں اور وباؤں کی قبل از وقت پیش گوئی کی جا سکتی ہے، جس سے بروقت تدابیر اختیار کر کے مرض کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید