مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
شعبان کی پندرہویں شب کوعام بول چال میں’’شب برأت‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سےبری کردیا جاتا ہے۔ اس رات کے بعض فضائل وبرکات نبی کریم ﷺسے منقول ہیں، پہلے ہم اس سلسلے کی روایات نقل کرتے ہیں اور پھر ان روایات کی روشنی میں اس شب کے اعمال کاتذکرہ کریں گے۔
ترمذی شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ’’ایک رات میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہ پایا تو آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی، آپﷺ جنت البقیع میں تھے۔ آپﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتے اور بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں‘‘۔
یعنی شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ جل شانہ کی رحمت کاملہ کا فیضان اس بیکراں طور پر ہوتا ہے کہ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے ریوڑ کے جتنے بال ہیں، اس سے بھی زیادہ لوگوں کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ وقت چونکہ برکات ربانی اور تجلیات رحمانی کے اترنے کا ہے، اس لئے میں نے چاہا کہ ایسے با برکت اور مقدس وقت میں اپنی امت کے لوگوں کی بخشش کی دعا کروں، چناںچہ میں اپنے پروردگار سے مناجات اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہوگیا۔
اسی طرح مشکوٰۃ شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے منقول ہے کہ سر کاردو عالم ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا’’ کیا تم جانتی ہو کہ اس شب میں یعنی پندرہویں شعبان کی شب میں کیا ہوتا ہے ؟ میں نے عرض کیا‘‘یا رسول اللہﷺ (مجھے تو معلوم نہیں آپ ہی بتائیے کہ ) کیا ہوتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال پیدا ہونے والا ہوتا ہے، اس رات کو اس کانام لکھا جاتا ہے، بنی آدم کا ہر وہ آدمی جو اس سال مرنے والا ہوتا ہے، اس رات میں لکھ دیاجاتا ہے، اس رات بندوں کے اعمال (اوپر) اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات بندوں کے رزق اترتے ہیں۔
نیز سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں صحابی رسول حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ راوی ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: اللہ جل شانہ، نصف شعبان کی رات کو (یعنی شب برأت کو )دنیاوالوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مشرک اور کینہ رکھنے والے کے علاوہ اپنی تمام مخلوق کی بخشش فرماتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بابرکت اور مقدس رات کو اپنی رحمت کاملہ کے ساتھ دنیا والوں پر متوجہ ہوتا ہے تو اس کا دریائے رحمت اتنے جوش میں ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کو بھی معاف کر دیتا ہے، اپنی بندگی و عبادت اور اطاعت و فرماںبرداری میں سرزد ہوئی کو تاہیوں اور لغزشوں سے درگزر فرماتا ہے ، مگر کفر وشرک کو معاف نہیں فرماتا اور ان کے معاملے میں اتنی مہلت دیتا ہے کہ اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے اور اگر توبہ نہ کریں اور اپنی بداعتقادی اور بد عملی سے باز نہ آئیں تو انہیں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات ہو (یعنی شب برأت) تو اس رات کو نماز پڑھو اور اس کے دن میں (یعنی پندرہویں شعبان کو ) روزہ رکھو، کیونکہ اللہ جل شانہ ، اس رات آفتاب چھپنے کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے (یعنی اپنی رحمت عام کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے) اور (دنیا والوں سے) فرما تا ہے کہ آگاہ رہو! ہے کوئی بخشش چاہنے والا کہ میں اسے بخشوں؟ آگاہ رہو! ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دوں؟آگاہ رہو! ہے کوئی گرفتار مصیبت کہ میں اسے عافیت بخشوں؟ آگاہ رہو! ہے کوئی ایسا اور ایسا ،یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر ضرورت اور ہر تکلیف کا نام لے کر اپنے بندوں کو پکارتا رہتا ہے، مثلاً فرماتا ہے، کوئی مانگنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ ہے کوئی غمگین کہ میں اسے خوشی و مسرت کے خزانے بخشوں؟ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ ان تمام احادیث کریمہ نیز صحابۂ کرامؓ اور بزرگانِ دین کے عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس رات میں مندرجہ ذیل تین کام کرنے کے ہیں:
اس رات رحمتوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، برکتوں کا نزول ہوتا ہے، خطاؤں کو معاف کیا جاتا ہے
۱۔مرحومین کےلئےایصال ثواب اور بخشش کی دعا کرنا۔ یاد رہےکہ نبی کریم ﷺ سے پوری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک بارشب برأت میں جنت البقیع جانا ثابت ہے، اس لئے اگر کوئی شخص زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے اس شب میں قبرستان چلا جائے تو سنت پوری ہوجائے گی اور اجر و ثواب حاصل ہوگا،جو چیز نبی کریم ﷺ سے جس درجے میں ثابت ہے،اسےاسی درجے میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اور دین ہے۔
۲۔اس رات میں نوافل، تلاوت اور ذکرو اذکار کا اہتمام کرنا۔ اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے، جس میں تنہائی اور خلوت مطلوب ہے، اس کے ذریعے انسان اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا نوافل وغیرہ تنہائی میں اپنےگھر میں ادا کرکےاس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔ نوافل کی جماعت اور مخصوص طریقہ اپنانا ثابت نہیں ہے۔ یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب، میلے اور اجتماع منعقد کرنے کے لیے نہیں ہیں، بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلق استوار کرنے کے قیمتی لمحات ہیں، انہیں ضائع ہونے سے بچائیں۔
۳۔دن میں روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، ایک تو اس بارے میں حضرت علی ؓ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم ﷺ ہرماہ ایام بیض(یعنی تیرہ،چودہ، پندرہ تاریخ) کے روزوں کا اہتمام فرماتےتھے۔ لہٰذا اس نیت سے روزہ رکھا جائے توموجب اجروثواب ہوگا۔ باقی اس رات میں پٹاخے پھوڑنا، آتش بازی کرنا یہ سب گناہ کے کام ہیں۔
شیطان ان فضولیات میں انسان کو مشغول کرکےاللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردینا چاہتا ہے اور یہی شیطان کااصل مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم شب برأت کی عظمت و فضیلت کا احساس کریں اور عبادت و بندگی کا مخلصا نہ نذرانہ پروردگار کی بارگاہ میں پیش کر کے اس کی رحمت عامہ سے اپنے دین و دنیا کی سعادتوں اور کامرانیوں کو حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں جن کی اس مبارک رات میں مغفرت کردی جاتی ہے۔
حسین نقشِ سعادت ہے مغفرت کی دُعا
حصولِ قُرب کی نعمت ہے مغفرت کی دُعا
نزولِ رحمتِ باری ہے صورتِ انعام
نگاہِ ربّ میں یہ قُربت ہے مغفرت کی دُعا
نظامِ راہ حقیقی میں آدمی کا وجود
یہ اُس سے عشق کی نسبت ہے مغفرت کی دُعا
ہر ایک حرف میں پنہاں ہے مدعا دل کا
کہ دل کا حرفِ ندامت ہے مغفرت کی دُعا
وہ جانتا ہے ہر اِک دل کا ظاہر و باطن
نہ سمجھے کوئی فصاحت ہے مغفرت کی دُعا
خدا کا فضل و کرم بے گماں ہے لامحدود
کہ دل کی ہونی برأت ہے مغفرت کی دُعا
الٰہی تیری ہی قدرت کے سب مظاہر ہیں
جمال تیری یہ مہلت ہے مغفرت کی دُعا
(جمال احمد جمال)