• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابی سنسنی اختتام پذیر ہونے کے بعد اب باری ہے تجسس اور ایڈونچر کے آغاز کی، سرِدست ہر طرف ایک ہی سوال کی بازگشت ہے کہ حکومت کتنی دیر چلے گی؟ ابھی گنتی شروع نہیں ہوئی کہ الٹی گنتی کا سُر چھیڑنے والوں کو حیران کن جلدی ہے! گِنتیاں شِنتیاں تو ہوتی رہیں گی مگر بیچ میں جو راگ بانی پی ٹی آئی نے چھیڑ دیا اس سے ہم عالمی افق پر ابھر آئے ، اور وہ بھی اسٹیٹ کے خلاف، اپنی جگہ اچھا تو لگا کہ بانی پی ٹی آئی کو قرض واپس کرنےکی کتنی فکر ہے، کہتے ہیں قرض واپس کون کرے گا؟ لیکن ریاست کیلئے اتنی تڑپ اس وقت کیوں نہ تھی جب سرکار کے اپنے ہاتھوں میں زمامِ اقتدار تھی؟

متذکرہ باتوں سے جو بحث و تمحیص کے دریچے کھلے ہیں ، اس میں اکثریت کا خیال ہے کہ اسمبلی مدت پوری کرے گی، اتحاد بنتے ٹوٹتے رہیں گے، ہو سکتا ہے وزیر بھی آتے جاتے رہیں بہرحال اس طرز کی باتیں کرنے والوں کا خیال ہے، جب آصف علی زرداری ایوان صدر میں براجمان ہوں گے تو وہ "پارلیمنٹ پرست" ہیں سو وہ جمہوریت پر آنچ نہیں آنے دیں گے کیونکہ وہ فطرتاً مصلحت پسند ہیں اور مفاہمت کے دلدادہ بھی۔ اور یہ وہ بات ہے جو آصف علی زرداری کے شدید سیاسی مخالف بھی کہہ رہے ہیں۔ زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھنے کے تناظر میں پہلے مرحلے میں مسلم لیگ نواز کا بھی اپنے اوپر اور آصف زرداری پر اعتماد بڑھتے دیکھا۔ وہ الگ بات ہے کہ عشق اور جمہوریت کے سر پر سورج ہمیشہ سوا نیزے ہی پر دکھائی دیتا ہے۔ عشق تو قربانی مانگتا ہے یا کہتا ہے کہ’’اک آگ کا دریا ہےاور ڈوب کر جانا ہے‘‘ لیکن جمہوریت مکالمہ مانگتی ہے، یہاں ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں، ورنہ سال سال نگراں حکومتوں کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا اور نہ کسی ڈپٹی اسپیکر کو خلافِ آئین جانا پڑتا ، یہ بھی ممکن تھا کہ تحریک عدم اعتماد کی نوبت ہی نہ آتی۔ اس بحث میں کچھ "تشدد پسند" یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر تیمور جھگڑا اور شوکت ترین صاحب کو اس وقت سزا مل جاتی جب انہوں نے ماضی قریب میں آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کے خلاف تانے بانے بنے تھے ، تو آج بانی پی ٹی آئی جیل میں سے آئی ایم ایف کو خط لکھنے پر نازاں نہ ہوتے۔

عملاً جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی کے حلف اٹھانے سے نئی پارلیمانی رُت کا آغاز ہوچکا اور ریاست کو درپیش چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے سیاسی قیادت کو معاشی بد حالی ، بے روزگاری ، موسمی تبدیلی کے خدشات ، خارجی پالیسیوں میں بہتری کے عمل ، زرعی زرخیزی و آبیاری اور صنعت کا پہیہ چلانے کیلئے ایک نئے عزم کو بروئے کار لانا چاہئے جو سیاسی نمائندوں اور جمہوریت نوازوں کا اصلی کام ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ جنہوں نے کل زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کو قصہ پارینہ بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، صدارتی نظام تک کے خواب دیکھنے کے علاوہ 18 ویں ترمیم کو تہ تیغ رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے انہیں بھی از سرِ نو سوچنا ہوگا کہ گلشن کا کاروبار مثبت اور پائیدار سیاست میں بھی ممکن ہے، تو منفی حربوں کا استعمال ہی کیوں ؟ اہلِ نظر نے دیکھ لیا کہ سیاست کسی کو جلا وطن کئے بغیر بھی ہو سکتی ہے تو یہ مشکل مشکل "تکلفات" کیوں؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی موجودگی میں بھی تو تحریک انصاف نے "آزاد" ہوتے ہوئے بھی تاریخ ساز کامیابی سمیٹی ہے، کے پی کے میں وہ کامیاب ترین ہے اور مرکز میں ایک طاقتور اپوزیشن۔ اور کون نہیں جانتا کہ آج کی اپوزیشن کل کی حکومت اور آج کی حکومت کل کی اپوزیشن ہوتی ہے، تو پھر نفرت ہی کی سیاست کیوں؟

مرکز، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اقتدار کی راہداریوں میں پھر سے چہل قدمی کا اعزاز پانے والوں کو بھی چاہئے کہ سیاسی اسیروں کیلئے عام معافی کا اعلان کردیں۔ اسی طرح خواہ مخواہ خط لکھنے والے اور کے پی کے میں پھر سے زمام اقتدار رکھنے والے اس زاویہ سے بھی سوچیں کے سندھ حکومت رکھنے والوں کو چور ڈاکو کہتے وہ نہیں تھکتے تھے لیکن 2008 سے تاحال وہاں حکومت کرنے والوں کے سبب سندھ دیوالیہ تو نہیں ہوا لیکن پارساؤں نے محض دو باریوں ہی میں کے پی کے کو کنگال کیسے کردیا ؟ اور تازہ ہوا کا جھونکا بن کر سوچنا مریم نواز شریف کو بھی ہے کہ انہوں نے "وراثت" ہی کا کاروبار چلانا ہے یا نفاست اور فراست کو بروئے کار لا کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے، انہوں نے کبھی بےنظیر بھٹو کو اپنی فیورٹ قرار دیا تھا ، سو یہ پسندیدگی تقاضا کرتی ہے جیسے بی بی نے نواز شریف سے مل کر ابھی تک کےناقابلِ تسخیر میثاقِ جمہوریت کو تراشا تھا وہ بھی مخالفین سے مل کر کوئی تاریخی کارنامہ سر انجام دیں کہ ملک سب کا ہے!

اس کالم کی اشاعت تک مرکز کی حکومت سازی کے بھی متعدد پہلو سامنے آ چکے ہوں گے، خدا کا واسطہ؛ پی ڈی ایم کا نام بھی نہ دیجئے گا اور کام تو بالکل نہیں۔ سن 2013 سے سن 2022 تک جو خارجی امور زوال پذیر تھے ان کو تقویت بخشیں، اور بخشئے گا بھی، باقی آپ کی مرضی ہمیں تو کچھ پر کل بھی یقیں نہ تھا اور آج بھی امید نہیں لیکن پرویز رشید سے لوگوں سے توقعات کل بھی تھیں اور آج بھی ہے مگر شہباز شریف یہ مان لیں تو نوازش ہو گی۔

نئے موسم میں درخواست یہ بھی ہے کہ بیوروکریسی، سائنس و ٹیکنالوجی ، ایچ ای سی ، مواصلات اور زراعت میں اصلاحات کی بہت ضرورت ہے صرف نیب ہی میں نہیں۔ سندھ والوں نے پچھلے کچھ عرصہ میں ہیلتھ ، ایجوکیشن، آئی ٹی اور مزدور و کسان کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے کچھ ویسا ہی اب بلوچستان میں درکار ہے، توقع یہ بھی ہےکہ ایوان صدر میں زرداری صاحب کے پہنچنے کے بعد ایران گیس پائپ لائن، سی پیک، گوادر ترقی اور آئین سازی کو برکت اور ترقی ملے گی! پنجاب کو تعلیم دوست گورنر اور زیرک چانسلر ہی ملنا چاہئے، اور وہ یہ بھی پوچھنا تھا کہ پیپلزپارٹی امتحانی وزارتیں کب تک لے رہی ہے؟ نیز تحریک انصاف اور باقیوں کی بیٹھک ایوانِ صدر میں زرداری مفاہمت اور مصالحت کے سائے میں جلد ہو گی نا؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین