وطن عزیز 8فروری کو عام انتخابات کے مرحلے سے بخوبی گزر گیا۔اور کسی بڑی دہشت گردی سے محفوظ رہا جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔انتخابات کے بعد جب ان کے نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو حالت ایسی تھی کہ کہیں خوشیوں کا شادیانے بج رہے تھے تو کہیں غم وغصے کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ کوئی انتظامیہ پر اور کوئی الیکشن کمیشن پر اپنا غصہ نکال رہا تھا۔ ہارنے والے دھاندلی کا الزام لگا رہے تھے اور جیتنے والے سب اچھا کا نعرہ بلند کررہے تھے۔ ہمارے ہاں ابھی جمہوریت ابتدائی سطح پر اُبھرنا شروع ہوئی ہے لہٰذاعوام میں اس کی جڑیں گہری نہیں ہوئیں۔ زیادہ عرصہ مارشل لاء ادوار میں گزرنے کی وجہ سے برداشت کا مادہ بھی کم پایا جاتا ہے۔شرح خواندگی کم ہونے کی وجہ سے پروسیجرل معاملات کو سمجھنے کا بھی فقدان ہے۔ قانون سے نابلد پڑھے لکھے افراد بھی بے پرکی اُڑا رہے ہوتے ہیں اور قانون دان قانون کو موم کی ناک سمجھتے ہوئے اپنی تشریحات آشکار کررہے ہوتے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔انتخابات کے بعد جمہوری روایتوں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ نظر آرہا ہے۔پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اور جماعت اسلامی امیر سراج الحق نے پورے ملک کے دورے کرکے اپنی اپنی پارٹی کی الیکشن مہم کو منظم طریقے سے چلایا جبکہ باقی پارٹیاں ایک یا دو صوبو ں تک محدود رہیںیا کچھ کو انتخابی مہم چلانے میں انتظامیہ کی طرف سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔پیپلز پارٹی نے الیکشن میں اچھی سیٹیں حاصل کیں۔مگر جماعت اسلامی نے پورے ملک میں قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں میں 243امیدوار میدان میں اتارے مگر قومی اسمبلی کی ایک بھی سیٹ حاصل نہ کرسکی۔جبکہ صوبائی اسمبلی کے 531حلقوں میں امیدواروں کو اتارا مگر صرف 6سیٹیں حاصل کیں۔تین کے پی کے میں، دو سندھ اور ایک بلوچستان میں۔جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم جماعت ہے اوراس نےسراج الحق کی قیادت میںایک تواتر سے جلسے جلوس اور دھرنے دے کر پورے ملک میں انتخابی مہم چلائی مگر اتنے برے رزلٹ آنے پر سراج الحق نے جمہوری رویہ اپناتے ہوتے ہوئے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیا(تاہم استعفیٰ منظور نہ ہوا)۔ جمہوری معاشروں میں یہ مسلمہ روایت ہے کہ جب عوامی مینڈیٹ نہ ملے تو سربراہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیتا ہے اور اسی طرح امارت سے استعفیٰ دے کر سراج الحق نے جس محنت سے مہم چلائی تھی اسی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جو ہمارے ہاں روایت کے برعکس ہے۔استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین دوسرے سیاسی رہنما ہیں جو انتخابات میں شکست کے بعد نہ صرف اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں بلکہ انہوں نے سیاست سے کنارہ کش ہونے کا بھی اعلان کیا ہے۔ جہانگیر ترین قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے انتخابات ہار گئے جبکہ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی کی دواور صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ جیتی ہے۔لاہور سے استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی سیٹیں اور عون چوہدری قومی اسمبلی کی سیٹ جیتے ہیں۔ جہانگیر ترین کی طرف سے پارٹی کی سربراہی چھوڑنے کا اعلان ان کے جمہوری رویے اور عوام کے فیصلے کے سامنے سرخم تسلیم کرنے کا مظاہرہ ہے۔ پشاور سے عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی اسمبلی کی امیدوار ثمر بلور نے انتخاب ہارنے کے بعد جمہوری رویے کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔ وہ جیتنے والے امیدوار کے گھر تشریف لے گئیں اوران کو جیتنے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے گلدستہ پیش کیا۔ ایک خاتون کی طرف سے جمہوری رویے کی یہ اعلیٰ ترین مثال ہے۔لاہو ر سے قومی اسمبلی مسلم لیگ ن کے امیدوار خواجہ سعد رفیق نے لطیف کھوسہ کو مبارکبار پیش کی اور اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا۔اب جبکہ الیکشن کے نتائج آگئے ہیں اور کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کرسکی اس لئے مخلوط حکومت بنانے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ہمیں مزید جمہوری رویوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلیٰ جمہوری روایات کو فروغ دینا ہوگا۔جیلوں میں قید تمام سیاسی کارکنان کو فوری رہا کردینا چاہیے اور تمام جماعتوں کو اکٹھے بیٹھ کر وطن عزیر کے مستقبل کو سنوارنے کیلئے کھلے دل کے ساتھ قومی حکومت کی تشکیل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے اور اقتصادی استحکام کو ترجیح دیتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ قدم ملاکر چلنا چاہیے۔اگرچہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔یہ ہم سب کا ملک ہے اس کی بہتری کیلئے ہم سب کو مل جل کر کام کرنا چاہیے اب پاکستانیوں کو ایک قوم کی طرح اُبھر کر آنا ہے، جس کیلئے سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔