• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مینڈیٹ چوری کے پُرشور نعروں میں آج جیسے کیسے شہباز شریف کا بطور وزیراعظم انتخاب بھی ہوجائے گا اور آصف علی زرداری پھر سے صدرمملکت بن کر صدارتی محل میں براجمان ہوجائیںگے۔لیکن انتخابی نتائج کے حوالے سے شدید محاذآرائی ماند پڑنے والی نہیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوان مچھلی منڈی بن کرجمہوری ٹرانزیشن کا ڈرامہ اپنے چوتھے ایکٹ میں پہنچتے پہنچتے جمہوریت کی ٹریجڈی میں بدل گیا ہے۔ جمہور کے مینڈیٹ کا پاس رہا نہ سویلین اختیار کے پلے کچھ بچا۔ پورے کے پورے ہائبرڈ نظام کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی ہے اور جمہوری لبادہ کب کا تار تار ہوچکا۔سیاستدانوں نے باہم لڑائی میں ایک دوسرے کو مات دینے اور باریاں لگانے کیلئے سیل آئوٹ کی دوڑ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھاتے دکھاتے کوئی جمہوری اصول چھوڑا نہ اخلاقی جواز۔آج ایک زیر عتاب تو کل دوسرا مسند اقتدار کا اسیر۔ عوام کا حق خود اختیاری اور حق رائے دہی بار بار چھننے سے جمہوریہ رہی نہ جمہور کا اقتدار اعلیٰ۔ نتیجتاً عوام اور ریاست کے درمیان 1973 کا سوشل کنٹر یکٹ کب کا بار بار توڑا جاچکا جسکی جگہ اب کالونیل ورثہ میں ملی مقتدرہ مطلق العنان بن کر بزعم خویش ریاست ہونے کی دعویدار دکھائی دیتی ہے۔جبکہ ریاست کے اجزائے ترکیبی کے دوبنیادی عناصر عوام اور انکا اقتدار اعلیٰ منہدم ہوگئے ہیں۔ باقی رہا جغرافیہ تو وہ جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں کے آہنی ہاتھوں میں محفوظ ہوگیا ہے۔ اب ایک اتھاریٹیرئن اسٹیٹ بچی ہے جس نے ہر سو پائوں پھیلا کر ہر سویلین جاکو سکیڑ دیا ہے۔ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ وفاق سے بیگانگی چاروں وفاقی اکائیوں میں پھیل گئی ہے اور سیاسی انتشار ایک مستقل بحران بن گیا ہے۔ اخلاقی جواز سے محروم پے در پے ہائبرڈ حکومتیں اس قابل نہ تھیں کہ مملکت کے ادارہ جاتی اور معاشی و معاشرتی بحران کو حل کرپاتیں۔ دست نگر معیشت کا لاینحل بحران اب اُمرا کی اجارہ داری کے بس سے باہر ہوکر مملکت کے خلجان کا باعث بن گیا ہے۔ اسٹیل سٹرکچر پہ ریاست کاانحصار خود ریاست کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔

نئی حکمران مخلوط حکومت عوامی مینڈیٹ اور اخلاقی جواز سےمحروم ہونے کے باعث اسٹیٹس کو کو برقرار نہیں رکھ پائے گی بھلے اسے مقتدرہ کی کتنی ہی حمایت حاصل رہے۔ اور عوامی مینڈیٹ کی حامل حزب اختلاف (تحریک انصاف) اپنے مینڈیٹ کی چوری اور جاری ناانصافی پہ کیوں سمجھوتہ کرے گی؟ عام انتخابات کے متنازع نتائج نے عوام کا انتخابی و سیاسی عمل پہ اعتماد ختم کرکے رکھ دیا ہے جسکی بحالی بناکوئی اخلاقی جواز والی حکومت نہ بن پائے گی بھلے کیسے ہی ناٹک رچائے جائیں۔ بدقسمتی سے مقتدرہ کا کوئی ادارہ ثالث کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ عسکری ادارے تو سیاست میں ملوث ہوکر سیاسی محاذآرائی میں پارٹی بن گئے ہیں، جبکہ سپریم کورٹ جسکے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھیننے اور ملٹری کورٹس کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کو معطل کرنے کے عبوری فیصلے نے اس سے ثالثی کی میزان چھین لی ہے۔ اس ہمہ جہت بحران میں بحران سے نکلنے کی تمام تر یک طرفہ کوششیں نامراد رہنے پہ بضد ہیں تو پھر کہاں سے شروعات کی جائیں؟

مختلف حلقوں کی جانب سے ایک نئے میثاق جمہوریت اور سیاسی معاملہ فہمی اور عظیم مفاہمت کی بات چھیڑی جارہی ہے جو اگر واقعی سنجیدہ ہے اورمحض وقت گزاری کی حیلہ سازی نہیں تو سب سے پہلے سیاسی نظام میں عوامی اعتماد بحال کرنے کیلئے تین بڑے اقدام کرنا ہونگے جو یہ ہیں: (1) قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک تہائی حلقوں میں اصلی فارم 45 کی بنیاد پر فارمز 46,47,48 کا دو ہفتوں میں اجرا اور حقیقی نتائج کا اعلان۔ اسکے لئے فریقین قومی اسمبلی میں بیٹھ کر ایک متفقہ فارمولہ طے کرسکتے ہیں۔ (2) 9 مئی کے واقعات میں ملوث تمام سیاسی قیدیوں کیلئےعام معافی کا اعلان یا پھر ضمانتوں پہ رہائی۔ (3) عمران خان سے ناروا سلوک کا خاتمہ اور ان سے مثبت بات چیت کا آغاز۔ ان اقدامات سے سیاسی ماحول بدل جائے گا اور سیاسی بحران سے نکلنے کا راستہ نکل سکتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ایک نئے سوشل کنٹریکٹ پر سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی میں مکالمے کا آغاز ہوجسکے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہوسکتے ہیں: (1) سول ملٹری تعلقات: بار بار کے ملٹری ٹیک اوورز کو روکنے اورحکومتی و سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت کا سد باب۔ (2) عوام کے حق رائے دہی کا احترام اور اقتدار اعلیٰ کی انکے منتخب نمائندوں کو منتقلی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئےآئینی، قانونی اور اداراتی اصلاحات۔ (3) آئین و قانون کی حکمرانی۔ ریاست کے تینوں اداروں (مقننہ،عدلیہ اور انتظامیہ) کے دائرہ کار کا واضح تعین کہ عوام کی حکمرانی یقینی رہے۔(4)وفاق اور قومی وحدتوں/اکائیوں کے مابین اٹھارویں ترمیم کی بنیاد پر قومی انتظامی و بین الصوبائی اداروں کی وفاقی سپرٹ میں تنظیم نو اور صوبوں کی شراکت داری۔ نیز اختیارات کی صوبوں سے مقامی حکومتوں کومنتقلی۔ (5) عالمی طور پر تسلیم شدہ انسانی، شہری، معاشی اور سماجی حقوق کی مزید صراحت اور یقین دہانی، حق اظہار پہ بندشوں کا خاتمہ، عورتوں اور اقلیتوں کے مساوی حقوق(6) دست نگر معیشت کی عوامی اور پیداواری کایا پلٹ۔ امرا، جاگیرداروں اور مافیاز کے قبضے کا خاتمہ اور عوامی سماجی ترقی کا ماڈل، قرضوں کے جال سے آزادی اور کرائے کی معیشت کا خاتمہ، نوکرشاہی کارپوریشنز کی اصلاحات، زرعی اصلاحات اور جدید سائنسی اور پیداواری معیشت کا فروغ اور اس میں عوامی شرکت۔ (7) ملٹری اسٹریٹجک اپروچ کی بجائے معاشی و عوامی سلامتی کے نظریہ کا فروغ اور ہمسائیوں سے معاشی تعلقات کی بحالی اور علاقائی ترقی۔ (8) خارجہ اور سلامتی کی پالیسیوں کا از سر نو تعین۔ (9) سیاسی و نظریاتی و مذہبی رواداری اور بقائے باہم کا فروغ۔ (10) قومی ریاست کی قومی وحدتوں کی تاریخی و ثقافتی اور جدیدیت کی بنیاد پر تعمیر نو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین