آج 5جولائی ہے اورلوگ پھراس مہینے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔کس کاانتظارہے؟کرپشن ختم ہونے کایاپاناما لیکس کافیصلہ ہونے کایاپاکستان کی تنہائی ختم ہونے کایاکشمیرکامسئلہ حل ہونے کایااس کاجوسارے کام کرے اورملک کوصحیح سمت میں لے جائے۔
5جولائی ہمیں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کی یاددلاتاہے جب حکومت اورپاکستان قومی اتحادکے درمیان مذاکرات ہورہے تھے اورجب اتفاق رائے پیداہوگیاتو مارشل لا لگ گیا۔5جولائی کے مارشل لا پر درجنوں کتابیں لکھی جاچکی ہیںدانشوروںنے تبصرے کئے ہیں اورکچھ لوگوںنے آنکھوں دیکھاحال بھی لکھا ہے۔ کہنے کی حدتک مارشل لاء لگنے کی وجہ سیاسی عدم استحکام تھا۔الیکشن میں دھاندلی کاالزام اورسیاستدانوں کا اتفاق رائے پیدانہ کرناتھا۔بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت وقت حالات کی خرابی کاکبھی بھی احساس نہیں کرتی۔حکومت نشے اورطاقت میں فیصلے کرتی ہے اپوزیشن سے کیڑے مکوڑوں کی طرح ڈیل کرتی ہے۔پارلیمنٹ کوبے وقعت بنادیاجاتاہے جس پر فوجیوں کی نیت خراب ہوجاتی ہے اوراس طرح5جولائی کو غیر جمہوری قوتوں کی خراب نیت نے منتخب حکومت کاتختہ الٹ دیا۔مارشل لاء لگانے کے اقدام کو سراہنے والوںنے بھی بعدمیں اس پرشدیدتنقیدکی دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ چنددن آنے کاوعدہ کرنے والوں اور اصلاحات کے ایجنڈے پرحکومت کاتختہ الٹنے والے دو حکومتوں کےTenureسے زائدوقت گزاردیتے ہیں۔ لیکن نہ ادارے قائم کرتے ہیں اورنہ ہی دورس نتائج کے حامل اقدامات اٹھاتے ہیں جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لا کوخوش آمدیدکہنے والے اورکابینہ میںشریک رہنے والوںنے بعدازاں جنرل ضیاء الحق کی بھرپور مخالفت کی۔ ایئرمارشل اصغرخان سے جنرل ضیاء الحق نے وعدہ کیاکہ وہ بروقت الیکشن کرا دیں گے لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا۔ جنرل ضیاء نے نہ صرف1979ء میں دوسری مرتبہ مارشل لا لگادیابلکہ اصغرخان کو5سال کیلئے قیدکئے رکھا۔ہمارے محب وطن دانشورجنرل ضیاء الحق کے دوست اورذوالفقارعلی بھٹوکے دورحکومت میں ہر طرح کی تکلیفوں سے گزرنے والے بھی آج 1977ء کے مارشل لا کو غلط قراردیتے ہیںاورآج کی خرابیوں کو اس دورسے جوڑتے ہیں۔بدقسمتی سے کوئی بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھتا۔ فوجی ملکی معاملات کو ٹھیک دیکھنا چاہتے ہیں۔سوسائٹی کوکرپشن سے پاک اورسب کا احتساب چاہتے ہیں لیکن اقتدارسنبھال کروہی حرکتیں شروع ہوجاتی ہیں جس کوبنیادبناکراقتدارحاصل کیا گیا ہوتا ہے۔ بھٹوکے دورحکومت میں اصلاحات کے نام پر متوسط طبقے کورونددینے کاالزام تھا۔مخالفین کے خلاف کارروائیاںرکنے کا نام نہیں لیتی تھیں لیکن 1973ء کے آئین جیسے اچھے کام بھی ہوئے تھے۔ 5جولائی1977ء کامارشل لا گیارہ سال چلتارہا جس کے دوران منتخب وزیراعظم کوپھانسی دی گئی۔ افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف پاکستان کواستعمال کیا گیا۔ دو مرتبہ بلدیاتی اور1985ء میںغیرجماعتی انتخابات کرائے گئے۔اس طرح سیاستدانوں کی نئی کھیپ تیارکی گئی۔اگرصحیح معنوں میںدیکھاجائے توآج کے قومی لیڈرانہی غیرجماعتی بلدیاتی اورعام انتخاب کی پیداوار ہیں اوراکثریت جمہوریت اور سیاست کو نہیں سمجھتی۔گلی محلے کی سیاست اورتھانہ کچہری کے معاملات پارلیمنٹ کے ارکان کے کام رہ گئے ہیں۔منتخب ہونے کیلئے صرف اورصرف پیسے کی ضرورت ہے۔اوریہی وجہ ہے کہ کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ 1977ء میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی گئی تھی توآج کرپشن کے خلاف تحریک چلانے کی بات ہورہی ہے۔افسوس صرف یہ ہے کہ کوئی بھی حقیقت کی طرف نہیں آرہا۔دوسال قبل عمران خان نے دھاندلی کے خلاف دھرنادیاتھاتوباقی اپوزیشن نے حکومت کاساتھ دیاجبکہ عمران خان انگلی اٹھنے کاانتظارکرتے کرتے دھرناختم کرکے چلے گئے۔ ڈاکٹرطاہرالقادری اپنی بانسری بجانے کیلئے جب دل چاہے آجاتے ہیں اورShowکرتے ہیںکہ انہیں طاقتوں کی سپورٹ حاصل ہے مگرکچھ حاصل نہیں ہوتا۔
جولائی2016پھر5جولائی1977ء کی طرف دیکھ رہاہے۔ملک میں سیاسی افراتفری ہے۔ کراچی اور بلوچستان کے حالات خراب کئے جارہے ہیں۔مخصوص طاقتیںملک کونقصان پہنچانے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔آرمی چیف کوکراچی جاناپڑا۔ایک طرف وزیرداخلہ اوردوسری طرف وزیراعلیٰ سندھ کوبٹھاکروعدہ کیاکہ کراچی کی زندگی معمول پرلائیں گے اورامن کے حصول کامشن جاری رہے گا۔ مجرموں کوپاک کرکے دم لیں گے جبکہ عدالتیں حکومت کی کارکردگی سے سخت ناخوش ہیںاورسپریم کورٹ کہتی ہے کہ حکومت عدالتوں کے فیصلوں پرعمل نہیں کررہی ۔حکومتیں سمجھتی ہیں کہ انکے اقدامات چیلنج نہیں ہوسکتے۔فوجی ترجمان اوردفترخارجہ کے ترجمان کہتے ہیں کہ فوج جمہوریت کی حامی ہے اورجنرل راحیل شریف کویہ اعلان کرناپڑرہاہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں فوج ساتھ دے گی۔کرپشن کے خلاف کچھ نہ کچھ توہورہاہے لیکن یہ تاثرتیزی سے ابھررہاہے کہ احتساب صرف بلوچستان اورسندھ میں ہورہاہے۔اچھی بات صرف یہ ہے کہ کہیںبھی انتقامی کاروائی نہیں ہورہی ہے اورنہ ہی جھوٹے مقدمات قائم کئے جارہے ہیںجبکہ پنجاب اورKPKمیں برائے نام احتساب ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیادونوں صوبوں میں کوئی کرپشن نہیں ہورہی؟پارلیمنٹ کی حالت یہ ہے کہ اس میں ارکان کی اکثریت اجلاسوں میں نہیں آتی۔قومی بجٹ میں درجنوں ارکان شریک نہیں ہوئے۔پارلیمانی کمیٹی نہ توپاناما لیکس کامعاملہ حل کرپائی ہے اورنہ ہی الیکشن کمیشن مکمل کرسکی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میگامنصوبے بنانے کے ماہر ہیں اور ان میں کرپشن بھی نہیں ہونے دیتے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میگا منصوبوں سے غریب آدمی کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ لوڈشیڈنگ کا عذاب تین سال حکومت کرنے کے باوجود جاری ہے۔ لوگ نفسیاتی مریض بن رہے ہیں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمارہے لیکن لوگوں کی سہولتیں نہ ہونے کے برابرہیں۔اسحاق ڈارٹیکس کے ذریعے لوگوں کوماررہے ہیں اورسبق دے رہے ہیں کہ دال مہنگی ہے تولوگ مرغی کھایاکریں۔اپوزیشن کی بات کونہیں سناجارہا۔
پاناما لیکس پرTORکمیٹی میں کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا۔ دکھ کی بات ہے کہ اتنے بڑے بڑے ماہرین یہ فیصلہ نہیں کرپارہے کہ ریفرنس کیا ہونا چاہئے۔ اگر پارلیمنٹ کے یہ لوگ فیصلے نہیں کرسکتے تو پھر ایسی پارلیمنٹ کا کیا فائدہ۔ پارلیمنٹ تو لوگوں کو ریلیف دیتی ہے۔ لوگوں کی امیدوں کامرکزہوتی ہے۔حکومت اوراپوزیشن صرف اورصرف پارلیمنٹ کی طرف دیکھتی ہیں۔اس مایوسی اوربے یقینی کی حالت میںلوگوں کوپارلیمنٹ سے ہٹ کرکہیں اور دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جولائی 2016ء کو 5جولائی1977ء کے حالات سے موازنہ کرنا پڑ رہا ہے۔ 5جولائی1977ء کو دہرانا مسائل کاحل نہیں۔ضرورت صرف یہ ہے کہ ہم ہی اپنی اصلاح کرلیں اورماضی سے سبق سیکھیں۔
.