• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی نظام حکومت میں عہدہ صدارت انتہائی اہمیت کا حامل ہے، تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں سویلین شخصیا ت تو ایک سے زائد مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن عہدہ صدارت پر اب تک دوبارہ کسی کو یہ موقع نہیں ملا۔

گزشتہ 13 صدور میں سے پانچ کا تعلق فوج سے، ایک بیوروکریٹ، ایک جج اور باقی سیاست سے تعلق رکھتے تھے، پاکستان نظام حکومت میں صدر کا عہدہ آزادی کے قریباً 9 سال بعد 1956 ملک کے پہلے آئین کے نفاذ کے بعد عمل میں آیا ۔

1973 کے آئین سے پہلے تینوں صدر کو مستعفی ہونا پڑا تھا لیکن 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد چار سویلین صدر نے کامیابی سے اپنی صدر کی مدت میعاد مکمل کی جبکہ باقی 6 صدور کو کسی نہ کسی موقع پر قبل ازوقت مستعفی ہونا پڑ اتھا۔

ملک میں عہدہ صدارت کا آغاز پہلے آئین کے نفاذسے شروع ہوا، چار مارچ 1956 کو بلامقابلہ منتخب ہونے کے بعد 23 مارچ 1956 ملک کے تیسرے گورنر جنرل میجر جنرل اسکندر مرزا نے صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، وہ 27 اکتوبر 1956 تک برقرار رہے، وہ اپنی مدت پوری کرنے سے پہلے مستعفی ہوگئے تھے، جس کے بعد آرمی چیف جنرل ایوب خان نے یہ عہدہ ازخود سنبھال لیا تھا وہ 25 مارچ 1969 اس عہدے پر کام کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے تھے، وہ بنیادی جمہوریت طریقہ انتخاب کے ذریعے دومرتبہ منتخب ہوئے تھے۔

25 مارچ کو تیسرے صدر آرمی چیف جنر ل یحییٰ خان بنے جو 20 دسمبر 1971 تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے ، یہ بھی مستعفی ہوئے جبکہ 20 دسمبر 1971 کو چوتھے صدر پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین رکن قومی اسمبلی ذوالفقار علی بھٹو بنے، یہ پاکستان کی تاریخ میں صدر بننے والے پہلی سیاسی شخصیت تھے، جو 14 اگست 1973 تک اس عہدے پر فائز رہے اور ملک کا پہلے متفقہ آئین نافذ کرنے کے بعد عہدے صدارت سے مستعفی ہو کر وزیر اعظم پاکستان بن گئے تھے۔

اسی دن متفقہ آئین کے تحت پاکستانی تاریخ کے پہلے اور مجموعی طور پر پانچویں صدر فضل الہٰی چوہدری منتخب ہوئے یہ بھی رکن قومی اسمبلی تھے، انہیں تاریخ میں پہلی بار دستور کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے ارکان نے ووٹ دیا تھا، انہوں نے نیپ کے امیدوار امیر زادہ خان کو شکست دی تھی۔یہ 16ستمبر 1978 تک اپنی مدت کے مکمل ہونے کے بعد رخصت ہوئے تھے۔

16 ستمبر 1978 کو چیف مارشل لا ایڈمسٹریٹر آرمی چیف جنرل ضیاالحق نے صدارت کا حلف اٹھالیا تھا وہ اس عہدے پر اپنے حادثاتی انتقال 17 اگست 1988 تک موجود رہے، انہوں نے اپنی مدت کے دوران ایک صدارتی ریفرنڈم کرا کر خود کو منتخب کرایا تھا، ضیاالحق کے اچانک انتقال کے سبب چیئرمین سینیٹ غلام اسحق خان نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ نومبر 1988 کو ملک میں الیکشن ہوئے تو وہ اگلی مدت کے لیے نواب زادہ نصراللہ خان اور دیگر دو امیدواروں کو شکست دے کر ملک کے ساتویں صدر منتخب ہوگئے، اپنی میعاد مکمل ہونے سے چند ماہ پہلے سیاسی چپقلش کے باعث 8 جولائی 1993 کو انہیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ 

8 جولائی 1993 کو آئین کی روح سے چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا، اکتوبر 1993 کے الیکشن کے بعد نئی اسمبلی وجود میں آئی تو 13 نومبر 1993 کو نئے صدر کا انتخاب عمل میں آیا، پی پی کے حمایت یافتہ فاروق خان لغاری وسیم سجاد کو شکست دے کر ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، وہ سیاسی چپقلش کے باعث 2 دسمبر 1997 کو اپنی مدت سے پہلے مستعفی ہوگئے تھے، چیئرمین سینٹ وسیم سجاد دوسری مرتبہ قائم مقام صدر تھے۔ 

یکم جنوری 1998 سابق چیف جسٹس اور ن لیگ کے حمایت یافتہ رفیق تارڑ نویں صدر منتخب ہوئے، انہوں نے پی پی کے آفتاب شعبان میرانی، مولانا خان محمد شیرانی، سمیت دیگر امیدواروں کو شکست دی تھی، بدقسمتی سے صدر رفیق تارڈ بھی اپنی مدت میعاد مکمل نہیں کر سکے تھے اور 20 جون2001 کو ان کو سبکدوش کردیا گیا تھا۔

اگلے صدر آرمی چیف پرویز مشرف تھے وہ اس عہدے پر 18اگست 2008 تک موجود رہے، اس دورا ن انہوں نے خود کو ریفرنڈم اور اسمبلی سے منتخب کروایا تھا انہیں بھی اپنی مدت میعاد سے بہت پہلے مستعفی ہونا پڑا تھا۔

9 ستمبر 2008 کو ملک کے گیارہویں صدر رکن قومی اسمبلی آصف علی زرداری بنے انہوں نے صدارتی انتخاب میں مسلم لیگ ن کے جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اور ق لیگ کے مشاہد حسین سید کو شکست دی تھی، آصف زرداری نے اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کی اور 9ستمبر 2013 تک اس عہدے پر فائرز رہے تھے۔

9 ستمبر 2013 کو ن لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار ممنون حسین پی ٹی آئی کے وجیہ الدین کو شکست دے کر بارہویں صدر منتخب ہوئے، پی پی، اے این پی اور ق لیگ نے انتخاب کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ممنون حسین نو ستمبر 2018 اپنی مدت مکمل ہونے تک اس عہدے پر براجمان رہے۔

نو ستمبر 2018 کو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی تیرہویں صدر منتخب ہوئے، انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور اعتزاز احسن کو شکست دی تھی۔

خاص رپورٹ سے مزید