شہر آشوب کا ذکر کرتے ہوئے فیض احمد فیض نے کہا تھا:
رہ چلئے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے۔ اگر فیض آوارہ کتوں کے بھونکنے پہ پریشان تھے۔ تو سال بھر میں جب خواتین اپنے نسوانی و مساوی انسانی حقوق کی بازیابی کےلئے باہر نکلتی ہیں تو اُنکے نالے، انکی فریادیں اور انکی سسکیاں سننے والے کم اور آوارہ گرد بلاگرز کی غوغائے سگاں میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن بمشکل اپنی عافیت بچاپاتا ہے۔ یہ لفنگے کون ہیں؟ یہ گلی کوچوں میں کیا کرتے ہیں؟ ان کا ذریعہ (بد) معاش کیا ہے؟ انکے بیمار اور جاہلانہ اذہان کی تربیت کہاں ہوئی ہے؟ ان میں اب اسلام پسند تو کم کم ہیں، البتہ جنسی و نفسیاتی بیمار سبھی لگتے ہیں۔
عقل و دانش، شائستگی اور ذہانت، تہذیب و تمدن، علم و بالیدگی اور پیشہ ورانہ صحافتی اقدار کا ان سے دور دور تک کوئی واسطہ نظر نہیں آتا۔ جو قدر (یا یوں کہیے کہ بے قدری) مشترک ان سب میں ہے کہ یہ عورت کے بارے میں بہت ہی گمراہ، جنسیت پسند، اوباش اور بدقماش سوچ رکھتے ہیں۔ نہ کوئی تعلیم، نہ کوئی شعور، بس اک طفلانہ ناشائستگی اور لذت فرسودگی ہے جو ان بلاگرز کے بے ہنگم ہجوم کو عورت مارچ پہ حملہ آور ہونے پہ اُکساتی ہے۔ ان میں مین اسٹریم میڈیا کے صحافی نہیں ہوتے اور جو کوئی اکا دکا ہوتے بھی ہیں تو ان کے پاس منفی اور سنسناتے سوالات کے علاوہ کوئی پیشہ ورانہ متجسس سوال نہیں ہوتا۔ عورت مارچ میں ایسی سینکڑوں خواتین ہوتی ہیں جنکے پاس سماجی اہمیت کی بے شمار دردناک کہانیاں ہوتی ہیں، جو ان خود ساختہ رپورٹرز کی دلچسپی کا باعث نہیں ہوتیں۔ ان فحش نگاروں اور آوارہ گردوں کی دلچسپی صرف اس میں ہے کہ تحریک نسواں کی کارکنوں سے یہ منوایا جائے کہ وہ فحاشی کی آزادی چاہتی ہیں اور وہ کونسے خاص حقوق ہیں جو انکے پاس پہلے سے نہیں ہیں اور یہ کہ وہ مردوں کے حقوق کی بات کیوں نہیں کرتیں؟ یا پھر یہ پٹا پٹایا سوال کہ کیا وہ مادر پدر آزادی چاہتی ہیں؟ کسی کو یہ فکر نہیں ہوتی کہ آخر یہ عورتیں کیا چاہتی ہیں، کیوں چاہتی ہیں اور کس لیے چاہتی ہیں؟ یہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کو زچ کر کے عجب سیڈسٹ یا ایذا رساں لطف اٹھاتے ہیں جس سے جانے انکی کونسی سفلی محرومی دور ہوتی ہے۔ یہ گند اگلنے اور گند اچھالنے آتے ہیں۔ اس لفنگے پن کو کیا نام دیا جائے کہ یہ معاشرتی گھٹن کی بدبو کے سوا کچھ نہیں۔
دنیا بھر کی تحریک نسواں کی چار لہروں کی طرح، پاکستان میں بھی تحریک نسواں کا ایک نہایت انسانی و سماجی و جمہوری اور مہذب ایجنڈا رہا ہے۔ لیکن اس پر طرح طرح کی متعصبانہ فتویٰ بازیاں اور پدر شاہی ملامتیں بھیجی جاتی رہی ہیں جوجمہوری و انسانی وصف سے محروم رہیں۔ خاص طور پر مذہبی حلقوں کی جانب سے اس دعویٰ کے ساتھ عورت کے سوال پہ بحث تمام کردی گئی کہ اسلام نے سب سے پہلے حقوق نسواں کا احترام کیا اور عورت کے حقوق و فرائض ہمیشہ ہمیشہ کیلئے متعین کردیئے۔ شروع شروع میں عورت مارچ کے خلاف فتوے بھی جاری کیے گئے اور پھر جواباً حیا مارچ منعقد کیے گئے اور عورت مارچ والیوں کو مغربی تہذیب کی دلدادہ ہونے پر راندہ درگاہ قرار دے کر مکالمہ ختم کردیا گیا۔ بیچ میں حقوق انسانی کی قائد عاصمہ جہانگیر اور جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کی رہنما سمیحہ راحیل اور قومی اسمبلی میں خواتین کے کاکس نے خواتین کے حقوق پہ اتفاق رائے کو بڑھا کر اس مسئلہ پر مذہبی تنازع کا حل نکالنے کی کوششیں کیں۔ اب اسلامی ہوں، یا لبرل یا پھر ریڈیکل خواتین سب اپنے اپنے نظریہ سے عورتوں کے حقوق پر آواز اٹھاتی نظر آتی ہیں۔ لیکن یہ لفنگے بلاگرز کون ہیں جو اسلامی ہیں نہ لبرل اور نہ جمہوری؟ انہیں بس ایک جنسی مصالحہ چاہیے جسکی کالک یہ نہایت مہذب خواتین کے چہروں پہ مَل دینا چاہتے ہیں۔
ہنگامہ بپا ہوا بھی تب جب عورتوں نے اپنے حق خود اختیاری کا دعویٰ کردیا جس پر پدر شاہی ردعمل یہ آیا کہ عورتیں حق علیحدگی چاہتی ہیں یا یہ کہ وہ مرد دشمن ہیں۔ لیکن پدر شاہی کے گیاہستان میں’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کی چنگاری نے تو جیسے آگ لگادی۔ بہت سے مرد حضرات آستینیں چڑھا کر میدان میں اترے کہ عورت خود کو مرد کے قبضہ قدرت سے کیوں کر آزاد کراسکتی ہے؟ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ کچھ مختلف متن کے ساتھ مغرب میں حق تولیدگی و زچگی اور جنسی ہراسانی کے حوالے سے سامنے آیا جس میں حق اسقاط حمل بھی شامل تھا جس پر ابھی بھی امریکی معاشرہ اور سیاست تقسیم ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اگر مرد اپنی صحت، اپنے جسم کی آرائش و ساختگی اور جمالیاتی ذوق اور جبلی تسکین میں خود مختار ہے تو یہ اس کا پیدائشی حق ہے ، لیکن جب عورت اپنے جسم و جاں کی مردوں سے خلاصی چاہے اور نگاہ بد سے محفوظ رہنے کا جتن کرے اور اپنے آپ پر اور اپنی زندگی پہ خود اختیاری کی مانگ کرے تو وہ کیوں قابل گردن زدنی ٹھہرے۔ جس میں حق علیحدگی، تولیدگی و زچگی پہ اپنا اختیار اور جنسی استحصال و ہراسانی سے نجات بھی شامل ہے۔ تحریک نسواں تو جنسی ہراسانی ، جسم فروشی اور عورت کو جنس کے طور پر پیش کرنے اور مرد کی جوتی بنے رہنے سے انکاری ہے۔ اس میں بدکاری کہاں سے آگئی؟ عورتیں ایسا کوئی حق نہیں مانگ رہیں جسکا بازار مردوں نے صدیوں سے اپنی آسودگی کیلئے گرم کیے رکھا ہے۔ اس جنسی بیوپار پر مرد کا قبضہ رہا ہے جس کا وہ خاتمہ چاہتی ہیں۔ پدر شاہی خاندان ہو، یا سماجی رشتے، معاشی میدان ہو یا پھر سیاست و طاقت کے دائرے، سبھی پہ مرد کی حکمرانی قائم ہے۔ جسے عورتوں نے چیلنج کردیا ہے۔ عورتوں کے حق خود ارادیت کا مطلب اسکی خودمختاری ہے (بھلے آپ اسے مرد سے خود مختاری سمجھ لیں)۔ عورت آزاد ہوگی، تعلیم یافتہ ہوگی، ہنر مند ہوگی، توانا ہوگی تو معاشرہ اور مرد بھی آزاد و توانا ہوگا۔ عالمی سطح پر عورتوں کی تحریک کا ایک بہت ہی چھوٹا سا ٹکڑا مرد سے مکمل علیحدگی کی بات کرتا ہے۔ وگرنہ تحریک نسواں مرد و زن کی برابری و مساوات اور باہمی منصفانہ انسانی رشتوں کی طلبگار ہے۔ خاندان، معاشرے اور ریاست کی پدر شاہانہ و آمرانہ اور غیر انسانی خصوصیات سے خلاصی پاکر ہی عورت اور مرد بطور انسان اور برابر پارٹنر کے زندگی کی فضیلتیں اور راحتیں پاسکتے ہیں اور ہم ایک منصفانہ انسانی معاشرے کی طرف قدم بڑھاسکتے ہیں۔ قدم بڑھاؤ خواتین، مرد حضرات تمہارے ساتھ ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)