• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسائل، مشکلات نت نئے امتحانوں کے پہاڑ ہمارے سامنے کھڑے ہیں، اردگرد جو ماحول بنایا جارہا ہے یا ہم خود اسکا شکار ہونے جا رہے ہیں کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ جس سے بہتری کی کوئی اُمید رکھی جاسکے۔ جیسے تیسے بھی انتخابی نتائج ڈبے سے نکلے، دھاندلی ہوئی یا کی گئی اب تو سب جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے حلف اٹھا کر ان نتائج کو تسلیم کرلیا ہے۔ پی ٹی آئی کے صدر عارف علوی نے نو منتخب وزیراعظم شہباز شریف سے حلف بھی لے لیا اور الیکشن کمیشن نے فارم 45،46 ،48 اور 49 ویب سائٹ پر بھی جاری کردیئے ہیں تو پھر رونا دھونا کیوں؟ ٹریبونلز میں جائیں، دھاندلی ثابت کریں اور اپنی جیت کو ہار میں بدلنے کا سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا بند کریں۔نو منتخب اپوزیشن اراکین قومی و صوبائی اسمبلی جو ایوانوں میں اچھل کود کررہے ہیں، مخالفین پر جوتے اچھالتے، نازیبا فقرے کستے، خواتین اراکین کی تذلیل کرتے اپنے رہنماؤں کی تصاویر اٹھائے غم منا رہے ہیں، کیا ان کے ووٹرز نے انہیں اس کھیل تماشے ، سیاسی سرکس میں کرتب دکھانے کو بھیجا ہے۔ اُنہیں احساس کیوں نہیں ہوتا؟ گزشتہ چار پانچ سال سے خصوصاً ایک جماعت، جو اب سنی اتحاد کونسل بن چکی ہے ،کے بانی نے اپنی لائن آف ایکشن بدلی نہ ہی اس جماعت کے نو وارد سیاسی وارثان اپنا انداز سیاست بدل رہے ہیں ۔ نئے نویلے اپوزیشن اراکین اسمبلی ڈی چوک اور لبرٹی چوک سے باہر نکلیں۔ قوم آپ سے مہذب سیاسی رویئے کی توقع رکھتی ہے آپ اسمبلیوں میں اپنے لیڈر کے ماسک پہن کربہروپئے تو بن سکتے ہیں مہذب یا تعلیم یافتہ ہرگز تسلیم نہیں کئے جاسکتے۔ مہذب ومضبوط اپوزیشن متبادل حکومت ہوتی ہے،اسمبلیوں میں اپنا آئینی، قانونی،سیاسی کردار منوائیں۔ صاحب اقتدار لوگوں کااحتساب کریں۔ انکی معاشی، سیاسی، ملکی و بین الاقوامی پالیسیوں پر تنقید آپ کاحق ہے اور متبادل تجاویز پیش کرکے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کریں کہ وہ حکومت سے بہتر عوامی خدمت کرسکتے ہیں۔ افسوس !نئی منتخب اسمبلیوں کو فعال ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے آپ روزانہ کی بنیاد پر ایوان کے اندر ایک دوسرے کی تذلیل کرکے ہمارے سرشرم سے جھکا رہے ہیں؟ جب ہم خیبرپختونخوا اسمبلی کے پہلے دن نو منتخب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کو مونچھوں کو تاؤ دیتے دیکھتے ہیں اور ایوان سے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد یہ کہتے سنتے ہیں کہ ’’ساڈا حق ایتھے رکھ ‘‘اور وہ آئی جی خیبرپختونخوا کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آرز فوری ختم کرو اور وزیراعظم شہباز شریف کی حلف برادری ،ان کے دورہ پشاور کا بائیکاٹ کرکے یہ واضح تاثر دیتے ہیں کہ خیبرپختونخوا سے آپ کو کوئی ٹھنڈ ی ہوا نہیں آئے گی تو سمجھ لینا چاہئے کہ بانی پی ٹی آئی کسی بھی صورت صلح جوئی سے کام لینے کو تیار نہیں۔ عجب حکمت عملی ہے، اپنے دشمن نمبرون بڑے مولانا صاحب کو تو جپھی ڈالنے کو تیار ہیں۔ اپنے کچھ ناراض سابق حکومتی اتحادیوں سے بھی رابطے کر رہے ہیں اور نومنتخب اسمبلیوں پر دباؤ بھی برقراررکھنا چاہتے ہیں ، شائد بانی پی ٹی آئی اس غلط فہمی کا شکارہیں کہ ان کی یہ جارحانہ حکمت عملی کامیاب ہو جائیگی اور وہ موجودہ برسراقتدار حکومت کو زیر وزبر کرنے میں کامیاب ہو جائینگے تو یہ خام خیالی ذہن سے نکال دیں کہ وہ اس طرح جیل سے باہر نکل آئیں گے یا انہیں کوئی سیاسی ریلیف ملے گا۔ جواب بڑا واضح دے دیا گیا ہے کہ ”9 مئی واقعات میںملوث افراد کو ہر صورت کٹہرے میں لایا جائے گا اورملکی سیاسی و معاشی استحکام میں حائل کوئی بھی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔“ بانی پی ٹی آئی کے پاس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ نو منتخب حکومت اور نظام کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں۔ انکے ہم خیال سنی اتحاد کونسل کے اراکین اسمبلیوں میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ سیاسی و معاشی مشکلات کے حل میں حکومت اور عوام کی رہنمائی کریں، مہنگائی کے ایشو پر بھرپور آواز اٹھائیں، حکومت کو مجبور کریں کہ وہ عوام کو حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرے، پٹرول، بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافے کے خلاف عوام کی آواز بنیں تو بات سمجھ آتی ہے ورنہ اسمبلیوں میں یہی کھیل تماشا چلتا رہا تو نہ اسمبلی چلے گی نہ حکومت۔ سب کا تیا پانچا ہو جائے گا۔ خیبرپختونخوا پاکستان کا اہم ترین اور حساس ترین صوبہ ہے یہاں کے عوام نے تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کو بھاری مینڈیٹ دیا ہے۔ علی امین گنڈا پور پر اس مینڈیٹ کا بھاری بوجھ ہے۔ وہ سمجھ بوجھ سے کام لیں، اپنے صوبے کی تعمیر و ترقی ،خوش حالی کیلئے بھرپور کام کریں، اگر انہوں نے مرکز سے محاذ آرائی کو ہی اپنی پہلی و آخری کامیابی سمجھ لیا اور دھمکی آمیز لہجے یا بڑھکیں مارنے پر ہی توجہ مرکوزرکھی اور انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی تو نہ صرف اقتدارسے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بلکہ پارٹی کارکنوں کی مشکلات بھی بڑھیں گی، عوام کا بھی کوئی بھلا نہیں ہوگا، سمجھنے کو تو سبھی سمجھتے ہیں کہ وفاق اور ریاست دونوں ہی بڑے طاقت ور ہوتے ہیں ان کے پاس اختیارات بھی ہیں اور خزانے کی چابیاں بھی، اگر اختیارات حرکت میں آجائیں تو بڑے بڑے زیر ہو جاتے ہیں۔ خزانہ ان کے حق میں نہ کھلا تو عوام کیلئے کچھ نہیں کرسکتے ، ملکی حالات جس نہج پر کھڑے ہیں ایک لمحے کی غلطی سب کو گہری کھائی میں گرادئے گی، وزیراعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ کھلے دل سے اپوزیشن کو میثاق معیشت و جمہوریت پر بجٹ سے پہلے باضابطہ مذاکرات کی دعوت دیں، اپوزیشن کی مثبت تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنائیں تاکہ اُسے بھی احساس ہو کہ ملکی ترقی میں ان کی رائے کو اہمیت دی جارہی ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ماضی کی سیاسی رنجشیں بھلا کر معیشت اور جمہوریت دونوں کو مضبوط کریں، اپوزیشن سے سیاسی اسیروں کی فہرست مانگیں اور جو بے گناہ نوجوان، خواتین اور مرد بلاوجہ دھر لئے گئے ہیں انہیں رہا کرکے خیر سگالی کے جذبے کو پروان چڑھائیں، بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی اور پہاڑوں پر بیٹھے مسلح بلوچوں سے بھی مذاکرات کی راہ ہموار کی جانی چاہئے ۔ حکومت و اپوزیشن کو سمجھ جانا چاہئے کہ اقتدار سدا نہیں رہتا اور عوام انہیں بار بار موقع بھی نہیں دیتے۔

تازہ ترین