مفتی غلام مصطفیٰ رفیق
ماہِ رمضان ہزاروں رحمتوں اور برکتوں کو اپنے دامن میں لئے ہم پرسایہ فگن ہونے والا ہے، یہ بابرکت مہینہ ایمان وتقویٰ کاآئینہ دار ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پرخاص رحمت وبخشش نازل فرماتا ہے۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے۔ اس ماہ مبارک میں نورانیت میں اضافہ، روحانیت میں ترقی،اجروثواب میں اضافہ اور دعائیں قبول کی جاتی ہیں۔
اس مبارک مہینے کواللہ تعالیٰ نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے، گویا اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ انسان کو اپنا بندہ بناناچاہتا ہے، اورانسان کواس طرف متوجہ کیا جاتاہے کہ وہ اپنے خالق ومالک سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑلے۔ اس ماہ مبارک میں دربارِالٰہی سے کسی سائل کوخالی ہاتھ، کسی امیدوار کو نا امیداور کسی طالب کوناکام ونامراد نہیں رکھاجاتا، بلکہ ہرشخص کے لئے رحمت وبخشش کی عام صدالگتی ہے۔
اس ماہ مبارک کاایک ایک لمحہ ہزاروں برس کی زندگی اورطاعت وعبادت سے بھاری وقیمتی ہے۔ اس میں اجروثواب کے پیمانے سترگنا بڑھا دیئے جاتے ہیں۔اس میں خیر کے طلب گاروں کی حوصلہ افزائی کی جاتی اورشرکے طلب گاروں کا راستہ روک دیاجاتا ہے۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ حق تعالیٰ کی طرف سے منادی ہوتی ہے کہ ’’اے خیر اور بھلائی تلاش کرنے والو!آگے بڑھو، اور اے شر اور برائی کے طلبگارو!بازآجاؤ‘‘۔حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’جب رمضان آتاہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین پابند سلاسل کردیئے جاتے ہیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا’’تم پررمضان کامبارک مہینہ آیا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس ماہ کاروزہ فرض کیا ہے، اس میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطان قید کردیئے جاتے ہیں، اس میں اللہ کی جانب سے ایک ایسی رات رکھی گئی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی خیرسے محروم رہا، وہ محروم ہی رہا‘‘۔
حضرت عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ سرکاردوعالم ﷺ نے فرمایا’’رمضان کی خاطرجنت کوآراستہ کیاجاتاہے ،سال کے ابتدائی سرے سے اگلے سال تک، پس جب رمضان کی پہلی تاریخ ہوتی ہے توعرش کے نیچے سے ایک ہواچلتی ہے جوجنت کے پتوں سے نکل کرجنت کی حوروں پرسے گزرتی ہے تووہ کہتی ہیں: اے ہمارے رب!اپنے بندوں میں سے ہمارے ایسے شوہر بناجن سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اورہم سے ان کی آنکھیں‘‘۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ’’ رمضان میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور شیاطین کو طوق پہنا دیئے جاتے ہیں، ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو رمضان کا مہینہ پائے اورپھراس کی بخشش نہ ہو‘‘۔
رمضان سے متعلق نبی کریم ﷺکے ان ارشادات سے اس ماہ مبارک کی عظمت اورتقدس کاپتا چلتاہے، لہٰذا ہمیں اس ماہ کی بھرپورقدرکرنی چاہئے، اس میں تمام ترمصروفیات کو مختصر کرکے رحمت ومغفرت الٰہی کی بہار کو سمیٹا جائے اور جتنا ہوسکے ،اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کیاجائے۔ ایک روایت میں آتاہے کہ رمضان پورے سال کادل ہے،اگریہ درست رہا تو پورا سال درست رہا۔
امام ربانی مجددالف ثانیؒ نے اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں اتنی برکتوں کانزول ہوتاہے کہ بقیہ پورے سال کی برکتوں کو رمضان المبارک کی برکتوں کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو قطرے کو سمندر کے ساتھ ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسا انقلابی مہینہ ہے کہ اگراس کے آداب کو صحیح طور پر بجالایا جائے اور پوری امت اس کی برکتوں اور سعادتوں کو مکمل طور سے حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوجائے تواس امت کی کایاپلٹ سکتی ہے اورآسمان سے خیروبرکت کے دائمی فیصلے نازل ہوسکتے ہیں۔ ایک مومن کوجہاں اس مہینے میں روزہ، تراویح، زکوٰۃ وصدقات کا اہتمام کرنا ضروری ہے، وہیں ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل لائحہ عمل کوبھی اپناناچاہئے، جوسرکاردوعالم ﷺنے ہمیں بتایا ہے۔
حضرت سلمان فارسیؓ آنحضرت ﷺ کایہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ:رمضان مبارک میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو، دو باتیں تو ایسی ہیں کہ تم ان کے ذریعے اپنے رب کوراضی کروگے، اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ تم ان سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ پہلی دوچیزیں جن کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کوراضی کرو گے، یہ ہیں ’’لاالہٰ الااللہ‘‘کی گواہی دینا اور استغفار کرنا، اور وہ دوچیزیں جن سے تم بے نیاز نہیں ،یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے جنت کاسوال کرو اور جہنم سے پناہ مانگو۔
آئیے روزے کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے اعمال و اطوار کو دیکھیں کہ اپنا ہی دامن ’’داغ دار‘‘ ہے۔ دامن کے داغوں (گناہوں کو) مٹانے کے لیے اس مہینے کو رضائے الٰہی کے مطابق گزار کر ’’متقی‘‘ کی سند حاصل کرلیں۔ قیامت میں اس ماہ مبارک میں اتارا ہوا قرآن حکیم اور اس میں فرض کیے ہوئے روزے ہی کام آئیں گے۔ رسول رحمتﷺ نے فرمایا: قرآن اور روزہ حشر کے میدان میں (روزے دار) کی شفاعت (سفارش) کریں گے۔
یہ ماہِ مبارک محبوب ﷺ کی امت کے لیے اللہ کی وہ عطا ہے کہ جسے حاصل کرنے کے لیے اس میں خود کو تیار کرلینا چاہیے اور اس پورے ماہ تمام خواہشات نفسانی سے ہٹ کر دل میں ایک تمنا،ایک عہد کریں کہ ہم اس پورے ماہ صرف اور صرف قدم قدم، لمحہ لمحہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی پابندی کریں گے۔ انشاء اللہ فیوض و برکات رمضان سے ہمارے ’’اعمال بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوکر ہمیں‘‘ عباد الرحمٰن کے درجے پر پہنچا دیں گے۔