• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا تارڑ نے کہا ہے کہ 9مئی میں ملوث لوگ آئی ایم ایف سے مذاکرات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تو میثاقِ معیشت کی بات تب کی تھی، جب اپوزیشن میں تھے۔ واقعی وہ صحیح فرما رہے ہیں۔ یہ میثاقِ معیشت ہی تھا، جب تحریکِ انصاف کی چلتی ہوئی حکومت گرا کر ڈالر اور تیل کی قیمتیں آسمان پہ پہنچائی گئیں۔ عمران خان کو جیل میں ڈالا گیا۔ غیر شرعی نکاح تک پر سزا دلوائی گئی۔ سیاسی عدم استحکام کی راہ ہموار کی گئی اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔

تحریکِ انصاف کے لیڈروں پر جب کریک ڈائون ہو رہا تھا تو سیاسی مخالفین جشن منا رہے تھے۔ آج تحریکِ انصاف کے لیڈروں کی شکلیں پہچانی نہیں جاتیں،پھر لیگی لیڈر خود کو جمہوریت پسند بھی کہتے ہیں۔ نون لیگ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ سیاسی مخاصمت اپنی جگہ ، یہ انسانیت سوز سلوک برداشت نہیں کیاجا سکتا۔ معیشت اس وقت موجودہ رجیم کے گلے کی ہڈی بن چکی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کا این ایف سی فارمولے میں تبدیلی کا مطالبہ مسترد کیا تو اچھا کیا۔ این ایف سی فارمولے میں تبدیلی اور صوبوں کا حصہ کم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ طبلِ جنگ بجے گا ، جس سے رہا سہا سیاسی استحکام اڑن چھو ہو جائے گا۔

آئی ایم ایف نے حکومت سے پی آئی اے اور دوسری ریاستی کارپوریشنوں کا نجکاری پلان طلب کیا ہے۔ ریاستی کارپوریشنوں ، جیسا کہ ریلوے اوراسٹیل مل کی نجکاری قومی مفاد میں ہے۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں۔ ان اداروں میں اصلاحات کر کے انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنے سے قاصر رہیں۔ 31دسمبر 2023ء کو ایک رپورٹ وزارتِ خزانہ نے جاری کی۔ پاکستان کی 31ریاستی کارپوریشنوں میں اس سال 730ارب روپے کا خسارہ ہوا۔ ان میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی سرِ فہرست تھی۔ پی آئی اے تیسرا سب سے زیادہ نقصان کرنے والا ادارہ ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کا چودھواں نمبر تھا ، جنرل مشرف نے جس کی نجکاری کرنے کی کوشش کی توجسٹس افتخار چوہدری گنڈاسہ اٹھائے نمودار ہوئے۔ آج تک خسارے کا یہ کاروبار جاری و ساری ہے۔

رپورٹ کے مطابق88سرکاری کارپوریشنوں میں سے 50منافع بخش ہیں۔ انہوں نے اس سال 560 ارب روپے کا نفع کمایا۔ باقی 31، جن میں پی آئی اے بھی شامل تھی، 730ارب روپے کا خوفناک نقصان کر رہی تھیں۔ سب سے زیادہ خسارے میں چلنے والی کارپوریشن نیشنل ہائی وے اتھارٹی ہے ، جس میں 168.5ارب روپے کا نقصان ہوا۔ پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی ( پیسکو) میں 102ارب روپے۔ پی آئی اے تیسرا بڑا نقصان دہ ادارہ ہے، 2022ء میں جس نے 97.5ارب روپے کا نقصان کیا ۔

نفع بخش اور نقصان اٹھانے والے اداروں کا میزان 162ارب روپے کا نقصان ہے۔ حکومت کو 2022ء میں اپنی جیب سے 179ارب روپے ان اداروں میں ڈالنا پڑے۔ دس سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے اداروں میں نیشنل ہائی وے اٹھارٹی، پی آئی اے اور ریلوے کے علاوہ باقی سات پاور سیکٹر کمپنیز ہیں۔ مجموعی طور پر سب سے زیادہ نقصان پاور سیکٹر میں ہو رہا ہے۔ ریلوے میں 2022ء میں 47.5ارب روپے ڈوبے۔ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی( لیسکو) میں 30ارب اور پی ٹی سی ایل میں 7.8 ارب۔

یہ سب وہ ادارے ہیں، جن پر بیٹھے ہوئے ایم ڈیز اور سی ای اوز لاکھوں کروڑوں وصول کر رہے ہیں۔ او جی ڈی سی ایل واحد ادارہ ہے ، جس کا منافع سوارب سے زیادہ تھا یعنی 134ارب روپے۔ یہ رپورٹ ملکی معیشت کی تباہی کو سمجھنے کیلئے بہت کافی ہے۔ وزارتِ خزانہ نے یہ رپورٹ صرف اور صرف آئی ایم ایف کے دبائو پر جاری کی تھی ورنہ یہ کبھی جاری نہ ہوتی۔

دنیا بھر میں اصول یہ ہے کہ جب کوئی ادارہ مستقل نقصان میں جاتا ہے تو جلد از جلد اسے بیچ دیا جاتا ہے ۔یہاں پیپلزپارٹی جیسی سیاسی جماعتیں احتجاج شروع کر دیتی ہیں۔ کیا ہماری قوم میں 31ایسے افراد بھی نہیں ، جو ان 31اداروں کی تشکیلِ نو کر کے انہیں نقصان سے نکال سکیں ۔ہر قوم میں ہوتے ہیں لیکن مسئلہ ہے سیاسی دبائو ۔

پی آئی اے، ریلوے سمیت ریاستی کارپوریشنیں سیاسی دبائو پر بھرتی کیے گئے ملازمین سے بھری پڑی ہیں۔ 2017ء میں پی آئی اے میں فی جہاز ملازمین کی تعداد550تھی۔ جسے کم کر کے پانچ سال میں 260پر لایا گیا۔ 8ارب روپے کی بچت ہوئی۔ اب یہ آٹھ ارب روپے اتنے سال میں کس کھاتے میں ضائع ہوتے رہے۔ پیسہ کنویں میں ڈالا جا رہا تھا۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جو لوگ یہ تعداد550تک لے جانے کے ذمہ دار تھے، انہیں سزا دی جاتی۔ جرم کی سزا دیئے بغیر ڈسپلن کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔ چین اگر ترقی کر رہا ہے تو اسی لئے کہ کرپشن پر سزائے موت ہے۔ پی آئی اے میں فی جہاز ملازمین کی اصل تعداد 145 ہونی چاہئے۔ 2019ء میں 56ارب روپے کا نقصان ہوا۔ 2020ء میں 34ارب روپے کا۔ یہ سلسلہ چلتا چلا جا رہا ہے۔ نون لیگ میثاقِ معیشت میں اگر سنجیدہ ہے تو سیاسی قیدی رہا کرے۔ کبھی رہا نہ کر سکے گی، کٹھ پتلیاں کبھی فیصلے نہیں صادر کرتیں۔

تازہ ترین