• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دو سال سے، اسلام آباد مسلسل مطالبہ کرتا رہا ہے کہ کابل حکومت تحریک طالبان پاکستان کو لگام دے۔انہیں پاکستانی فوجیوں اور شہریوں پر حملے کرنے سے روکنےکیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرےیااس کے خلاف کارروائی کرے۔اس مطالبے پر طالبان حکومت کا ردعمل کچھ ایسا رہا کہ ٹی ٹی پی کی الٹا حوصلہ افزائی ہوئی۔ہفتے کے روز، ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھرا ٹرک شمالی وزیرستان کے ضلع میں فوجی چوکی سے ٹکرا دیا، جس میں ہمارےسات فوجی شہید ہو ئے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیشِ فرقانِ محمد گروپ نے قبول کی اس تنظیم میں کچھ ٹی ٹی پی کے ارکان ہیں کچھ افغان طالبان ۔پاکستان نے جوابی کارروائی فضائی حملے سے کی ۔اپنی فورسز اس لئے نہیں بھیجیں کہ کابل یہ نہ سمجھے کہ پاکستان نے افغانستان پرباقاعدہ حملہ کردیا ہے۔یہ حملہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں انٹیلی جنس پر مبنی انسداد دہشت گردی کی کارروائی تھی۔پاکستان کی سب سے بڑی تشویش دہشت گرد گروہوں، خاص طور پر ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ تنظیموں سےہے، جن کی افغانستان کے اندر محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور انہوں نے پاکستانی سرزمین کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ بہر حال پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کا استعمال اب پاکستان کیلئےناقابل برداشت ہوچکا ہے ، صبر کی کوئی حد ہوتی ہے۔افغان سرحد کیساتھ سیکورٹی کی صورتحال کافی عرصہ سےناگفتہ بہ ہےاور افغان حکومت ہمیشہ پاکستان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کیلئے وقت مانگتی رہی ہےجو ایک بہانے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔"

تحریک طالبان پاکستان، افغان طالبان کی پاکستان میں ایک مددگار تنظیم کے طور سامنے آئی اور اس نے افغان امریکہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر پاکستانی ریاست کے خلاف ایک قاتلانہ مہم شروع کی۔ جس کا آغاز خود کش دھماکوں سے ہوا۔ اس تنظیم نے پاکستان بھر میں کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ اس نےسب سے مہلک حملہ پشاور کے اسکول پر کیا جس میں تقریباً ڈیڑھ سوکے قریب لوگ شہید ہوئے تھے جن میں زیادہ تر بچے تھے۔ ان دہشت گردحملوں میں ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ برسوں میں ٹی ٹی پی کے خلاف کئی فوجی آپریشن کیے مگر یہ لوگ ہمیشہ افغانستان بھاگ گئے اور افغان طالبان انہیں پناہ فراہم کرتے رہے۔ بے شک موجودہ کارروائی کے سبب افغان طالبان ناراض ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سپر پاورز کے خلاف لڑنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔ ہم کسی کو بھی اپنی سرزمین پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے مگر ہم ٹی ٹی پی کے خطرے کو مزید نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بے شک اس وقت عوام اور افواج پاکستان عمران خان کے مسئلہ پر ایک پیج پر نہیں ہیں مگر دہشت گردی کے معاملہ پر پورا پاکستان افواج پاکستان کے ساتھ ہے عمران خان تک۔ ہم نے افغانستان کے لوگوں کا بہت احترام کیا، ہر مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دیا مگر اس وقت کابل حکومت ٹی ٹی پی کی سرپرستی فرما رہی ہے۔ اسے اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ بیگناہ پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کا ساتھ دے گی یا پاکستانی عوام کا۔اب اسے واضح طور پرانتخاب کرنا ہو گا۔ اب دونوں طرف کھیلنا ممکن نہیں رہا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستانیوں کی ایک دہشت گرد تنظیم ہےتو پھر ہر دھماکے کے پیچھے افغانی ہی کیوں نکلتے ہیں۔کسی درگاہ پہ دھماکہ ہو نقش ِ پا افغانیوں کے ملتے ہیں۔کسی امام بارگاہ میں دھماکہ ہو تفتیش افغانیوں تک جا پہنچتی ہے۔کسی بازار میں دھماکہ ہو پیچھے سے افغانی برآمدہوتا ہے۔کسی سیکورٹی ادارے پر حملہ ہو پیچھے کوئی افغانی دکھائی دیتا ہے۔کسی فوجی چیک پوسٹ پر حملہ ہو پیچھے افغانی نکلتا ہے۔یہی بات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف دہشت گردوں کو اسلحہ مہیاکر رہی ہےبلکہ انہیں محفوظ پناہ گاہیں اور پاکستان میں داخل ہونے کے محفوظ راستے بھی فراہم کرتی ہے ۔یعنی وہ پوری طرح پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے۔

میں نےچار اگست دوہزار تیئس کو اپنے کالم میں لکھا تھا۔’’افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان دونوں ایک پیج پر ہیں مگر اقتدار میں آنے کے بعد دونوں نے طریقہ کار بدل لیا ہے۔ انہیں اپنے آقائوں نے ’’دروغ مصلحت آمیز‘‘ کا سبق رٹا دیا ہے۔ یعنی اب وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ۔ سو پاکستان کے پاس اور کوئی حل نہیں۔ کراچی سے ازبکستان کی سرحد تک ایک وسیع و عریض آپریشن کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو چن چن کر ختم کرنا ہماری قومی سلامتی کیلئے ناگزیر ہوگیا ہے‘‘۔

سو میں، افواج پاکستان نےافغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں کی ہیں، اس پر انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ساتھ درخواست گزار ہوں کہ جب تک ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہوتا ان کارروائیوں کو جاری رہنا چاہئے اور اگر افغان طالبان راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں بھی سبق سکھانا چاہئے۔ اسی میں ہم سب کی بقا ہے ۔اسی میں پوری دنیا کی سلامتی ہے۔ اسی میں دینِ حق کی فتح ہے۔

تازہ ترین