• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کرہ ٔارض سے بہت زیادہ پانی نکالنے کی وجہ سے یہ ایکسز آف روٹیشن تھوڑا سا شفٹ ہوگیا ہے ،جس کی وجہ سے اس کی محوری گردش پر اثر پڑا ہےاور یہ اپنے ایکسز آف روٹیشن کے تناسب سے 23.45 زاویہ پر جھک گئی ہے۔ اس کی محوری گردش کی ایک بڑی وجہ گلوبل وارمنگ بھی ہے۔ انسانی سرگرمیاں ایسے عوامل ہیں جو کرہ ٔارض کی محوری گردشی پر اثر انداز ہورے ہیں، جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں استعمال کے لیے زیر زمین پانی نکالنے سے کرۂ ارض کی گردش پر فرق پڑ رہا ہے۔ 1993ء سے لے کر 2010ء کے درمیان کرہ ٔارض کا گردشی محور تقریباً 80 سینٹی میٹر مشرق کی طرف سرک گیا ہے۔ 

تحقیق کے مطابق اس کی وجہ وسیع پیمانے پر زمینی پانی کے بڑے ذخائر کو نکالنا ہے،کیوں کہ زمینی پانی کے اخراج کا اثر سطح سمندر پر بھی پڑا ہے۔ جنوبی کوریا کے سیول نیشنل یونیورسٹی میں ارتھ سائنسز کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ موٹر یا پمپ کے ذریعے زمین سے نکالا گیا پانی یا تو بخارات بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے یا دریاؤں میں بہہ جاتا ہےاور آخر کار یہ سمندر میں گر جاتا ہے۔ اس طرح یہ پانی خشکی سے سمندر میں شامل ہو جاتا ہے اور یہ عمل پانی کی دوبارہ تقسیم کو جنم دیتا ہے۔ 

اس سے قبل 2016ء میں پانی کی زمین کی گردش کو تبدیل کرنے کی صلاحیت کو دریافت کیا گیا تھا۔ 2021ء میں ایک اور تحقیق میں زمین کے قطبی خطوں میں پانی کے ضیاع سے زمین کے گردشی محور کے جھکاؤ اور اثرات پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ یعنی ان خطوں میں موجود برف جو پگھل کر سمندروں میں بہہ جاتی ہے لیکن اب تک زمینی پانی کو نکالنے کے زمین کی گردش پر پڑنے والے اثرات کے متعلق تحقیق موجود نہیں تھی۔ زمین کی گردش کا قطب وہ نقطہ ہے ،جس کے گرد زمین گھومتی ہے۔ 

اس محور کے گرد گردش کو قطبی گردش کا عمل کہا جاتا ہے یعنی جب زمین کی گردش کے محور کی حالت سطح کی نسبت مختلف ہوتی ہے۔ زمین کے قطبوں کی پوزیشن میں تغیرات کو قطبی بہاؤ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ قدرتی طور پر ہوتا ہے۔ زمین کے مادّے کی تقسیم میں ہونے والی تبدیلیاں محور کو حرکت دینے کا سبب بنتی ہیں۔ اس طرح قطبین وہ نقطے جہاں زمین کا محور گردش کرتا ہے ،بھی بدل جاتے ہیں لیکن 1990ء کی دہائی سے زمین کے گردشی محور میں تبدیلی کا جو مشاہدہ کیا جا رہا ہے اس کی وجہ انسانی عمل ہے۔ زمین پر پانی کی تقسیم اس بات کو متاثر کرتی ہے کہ ہمارے سیارے پر مادّے کی تقسیم کیسے کی جاتی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ گھومنے والے حصے پر تھوڑا سا وزن ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس طرح جیسے جیسے پانی اپنی جگہ تبدیل کرے گا تو زمین کی گردش میں بھی کچھ فرق آئے گا۔ محقق سیو کے مطابق زمین کے گردشی قطب میں درحقیقت کافی تبدیلی آئی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہماری تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات کے ساتھ ساتھ زمینی پانی کی تقیسم کا بھی زمین کے گردشی قطب کے سرکنے میں بڑا عمل دخل ہے۔تحقیق میں سائنسدانوں نے یہ بھی جانا کہ زمین کے وسطی خطوط عرض بلد (خط استوا کے متوازی دائرے جو یکساں عرض بلد کے نقاط کو ملاتے ہیں) سے پانی کی تقسیم زمین کی گردشی محور پر زیادہ اثر ڈالتی ہے۔ تحقیق کے دوران زیادہ تر پانی مغربی شمالی امریکا سے شمال مغربی انڈیا میں تقسیم کیا گیا اور یہ دونوں خطے مین کے وسط عرض بلد میں آتے ہیں۔ 

سائنسدان سیو کا کہنا ہے کہ دنیا کے ممالک کی طرف سے وسط عرض بلد جیسے حساس علاقوں سے زیر زمین پانی کو نکانے کو کم کرنے کی کوششیں زمین کے قطبی سرکاؤ میں تغیرات کو بدل سکتی ہیں لیکن ایسا تب ہو گا جب یہ کوششیں کئی دہائیوں تک جاری رہیں۔ نئی تحقیق میں سائنسدانوں نے زمین کی گردش کے محور اور پانی کی حرکت میں تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔

پہلے انھوں نے سوچا کہ پانی کی تقیسم اور زمین کے ایک خطے سے دوسری جگہ منتقلی کی وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث قطبی علاقوں میں برف اور گلیشیئرز پگھلنے کے باعث ہے لیکن بعدازاں انھوں نے زمینی پانی کی تقسیم کے مختلف منظرناموں کو شامل کیا۔ سائنسدانوں نے زمین کے گردشی محور میں ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے ایک ماڈل تشکیل دیا تھا اور یہ 2150 گیگاٹن زمینی پانی کی دوبارہ تقسیم کے بعد ریکارڈ شدہ زمینی جھکاؤ سے مماثل ہے۔ اس سے قبل کی جانے والی تحقیقات میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ انسانوں نے 1993ء اور 2010ء کے درمیان 2150 گیگاٹن زیر زمین پانی نکالا ہے جو کہ سطح سمندر میں چھ ملی میٹر سے زیادہ اضافے کے برابر ہے۔

چین میں ہونے والی ایک نئی تحقیق میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ نے الٹی جانب گھومنا شروع کردیا ہے۔ زمین کی اوپری تہہ سیال دھات پر مبنی ہے جب کہ اندرونی تہہ ٹھوس دھاتوں پر مشتمل ہے اور اس کا حجم چاند کے 70 فی صد رقبے کے برابر ہے۔ ایسا مانا جاتا تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ کاؤنٹر کلاک وائز گھومتی ہے ،مگر پیکنگ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اندرونی تہہ کی گردش 2009ء کے قریب تھم گئی تھی اور پھر وہ مخالف سمت یا کلاک وائز گھومنا شروع ہوگئی۔ محققین نے بتایا کہ ہمارے خیال میں یہ تہہ پہلے ایک سمت میں گھومتی ہے اور پھر دوسری جانب گھومنے لگتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں سمتوں میں گھومنے کا یہ چکر 70 سال (ہر سمت کا چکر 35 سال میں مکمل ہوتا ہے) تک مکمل ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہےکہ 2009ء سے قبل آخری بار زمین کی اندرونی تہہ کی سمت 1970ء کی دہائی میں تبدیل ہوئی تھی اور اگلی بار ایسا 2040ء کی دہائی کے وسط میں ہوگا۔ محققین نے 1960ء سے 1990ء کی دہائی کے زلزلوں کے ریکارڈز کا موازنہ حالیہ زلزلوں سے کیا، جس سے عندیہ ملا کہ زمین کی اندرونی تہہ کی گردش 2009ء میں رک گئی تھی اور پھر اس نے سمت بدل لی۔ محققین کے مطابق اندرونی تہہ کے گھومنے کی سمت بدلنے سے دنوں کی لمبائی اور زمین کے مقناطیسی میدان میں تبدیلیاں آتی ہیں۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہماری کہکشاں میں زمین جیسے چھ ارب سیارے ہیں۔ اندھیری راتوں میں آپ نے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کا مشاہدہ تو کیا ہو گا۔ کچھ بہت روشن ہوتے ہیں، کچھ مدھم اور کچھ کسی کسی وقت ٹمٹا کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ آسمان پر کتنے ستارے ہیں؟ اربوں یا کھربوں؟ کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے، جیسے جیسے خلا میں دیکھنے والی دوربینوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، نئے نئے ستارے نظروں میں آرہے ہیں۔ ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہماری کہکشاں میں زمین جیسے سیاروں کی تعداد کم از کم 6 ارب ہے۔

زمین جیسے سیارے سے مراد ایک ایسا سیارہ ہے، جس کا ہمارے نظام شمسی جیسا ایک نظام ہو۔ اس نظام میں چند اور سیارے ہوں جو اپنے اپنے مدار میں اس نظام کے سورج کے گرد گردش کرتے ہوں۔ ہماری زمین جیسے سیارے کا سورج سے تقریباً اتنا ہی فاصلہ ہو جتنا کہ ہماری زمین کا ہے۔ سیارے کا قطر بھی ہماری زمین کے قریب ہو۔ اس سیارے میں چٹانیں بھی ہوں اور میدان بھی۔ جب یہ عوامل میسر ہوں گے تو وہاں پانی بھی ہو گا اور کرۂ ہوائی بھی، جس سے اس سیارے کا درجۂ حرارت اور موسمی حالات ایسے بن سکتے ہیں جو زندگی کے لیے مدد گار ہوں۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے فلکیاتی ماہرین نے ناسا کی طاقتور دوربین سے حاصل کردہ ڈیٹا سے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ہماری کہکشاں میں جی ٹائپ یعنی ہماری زمین جیسے سیاروں کی تعداد 6 ارب کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔

برٹش کولمبیا یونیورسٹی کی ماہر فلکیات اور اس تحقیق کی مصنفہ مشیل کونی موتو کا کہنا ہے کہ گنتی کے مطابق جی ٹائپ جیسے نظام شمسی میں زمین جیسے سیاروں کی تعداد صفر اعشاریہ ایک آٹھ فی صد ہے۔ یہ وہ سیارے ہیں جو ہماری مستقبل کی خلائی تحقیق کا مرکز بن سکتے ہیں۔ برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ایک اور ماہر فلکیات جیمی میتھیو کا کہنا ہے کہ محتاط اندازے کے مطابق ہماری کہکشاں میں 400 ارب ستارے ہیں، جن کے اپنے نظام شمسی ہیں اور ان کے گرد کئی کئی سیارے گردش کرتے ہیں۔ ان چار سو ارب سیاروں میں سے 7 فی صد ستارے ایسے ہیں جو جی ٹائپ کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ہماری کہکشاں میں 6 ارب کے قریب زمین جیسی خصوصیات رکھنے والے سیارے موجود ہیں۔ 

اس سے قبل کونی موتو نے ناسا کی دوربین کیپلر مشن سے تقریباً دو لاکھ ستاروں کے ڈیٹا پر تحقیق کی تھی۔ انہوں نے ہمارے نظام شمسی سے باہر 17 نئے سیاروں کا کھوج لگایا تھا۔ اجرام فلکی پر ہونے والی تحقیق مستقبل کی خلائی مہمات میں سائنس دانوں کی مدد فراہم کرے گی۔ تاہم، ابھی زمین سے بھیجی جانے والی خلائی مہمات طویل ترین فاصلوں کی وجہ سے ہمارے نظام شمسی کے سیاروں تک ہی محدود ہیں۔ زمین کا قریب ترین سیارہ مریخ ہے، جس کا کرۂٌ ارض سے فاصلہ 55 ملین کلومیٹر ہے۔ اس سیارے تک راکٹ پہنچنے میں 150 سے 300 دن لگتے ہیں، جس کا انحصار زمین اور مریخ کی اپنے اپنے مدار میں گردش پر ہے۔

دیگر سیاروں پر ہماری دنیا سے بھی زیادہ زندگی موجود ہوسکتی ہے۔ نئی تحقیق سے اب یہ بتانے میں مدد مل سکتی ہے کہ نئی دوربینیں کس طرح بنائی جائیں، کیونکہ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کس قسم کے سیارے ڈھونڈنا بہتر ہوگا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہماری زمین سے باہر بھی کئی ایسی دنیائیں ہیں جہاں کرۂ ارض سے بھی زیادہ پھلتی پھولتی زندگی موجود ہے۔ یہ نیا مطالعہ خلائی مخلوق کو تلاش کرنے کے ہمارے طریقہ کار کے لیے نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے، جس سے ہمیں نظام شمسی سے باہر کے سیاروں پر زندگی کی تلاش میں مدد ملے گی ۔

ڈاکٹر اولسن اور ان کی ٹیم نے حاصل شدہ نمونوں اور مشاہدوں کو یکجا کیا ہے اور یہ کوشش ان سیاروں پر زندگی کے آثار کے بارے میں معلومات کے لیے معاون ثابت ہوگی۔ ڈاکٹر اولسن کا اس تحقیق کے بارے میں کہنا ہے کہ ’’کائنات میں زندگی کی تلاش کے لیے ناسا کی توجہ ہمیشہ سے ’ ’قابل رہائش زون‘ ‘کے سیاروں پر مرکوز رہی ہے یہ ایسی دنیائیں ہیں جہاں مائع پانی کے سمندر موجود ہو سکتے ہیں۔ لیکن سبھی سمندر یکساں طور پر زندگی کی میزبانی کے قابل نہیں ہوتے جیسا کہ کچھ سمندر اپنے پانی کی گردش کے طریقہ کار کی وجہ سے دوسروں کے مقابلے میں رہنے کے لیے بہتر مقامات ہوتے ہیں۔‘ 

اس مطالعے کے لیے تحقیقاتی ٹیم نے ناسا کے سافٹ وئیر کا استعمال کرتے ہوئے ان سیاروں کے ماڈل بنائے جن کی مدد سے نظام شمسی سے باہر کے سیاروں کے حالات کو مصنوعی طور پر تیار کیا گیا اور ان کا جائزہ لیا گیا۔ ناسا کی اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے یہ ٹیم ممکنہ آب و ہوا اور سمندروں کے ایسے ماڈل تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی جو ان سیاروں پر موجود ہوسکتے ہیں۔ 

اس تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے پایا کہ ان میں سے بہت سے سیارے زمین کی نسبت زندگی کے لیے زیادہ سازگار اور پھلنے پھولنے والے ماحول کے حامل ہیں۔ انہوں نے زمین کے سمندروں میں اس عمل کا جائزہ لیا، جس سے یہاں زندگی کو پنپنے کا موقع ملا تھا اور غور کیا گیا کہ کیا کائنات میں کہیں اور بھی ایسا ہی عمل ممکن ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر اولسن کا کہنا ہے کہ’’ ہمارے کام کا مقصد نظام شمسی سے باہر کے سیاروں کے ایسے سمندروں کی نشاندہی کرنا ہے جو وافر اور فعال زندگی کی میزبانی کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید