• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلیں،اٹارنی جنرل سے زیرِ حراست افراد کے مقدمات کی تفصیلات طلب

سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹو
سپریم کورٹ آف پاکستان—فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کےخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے زیرِ حراست افراد کے مقدمات کی تفصیلات طلب کر لی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔

جسٹس ریٹائرڈ جواد خواجہ کے وکیل کا بینچ پر اعتراض

جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل نے بینچ پر اعتراض کر دیا اور کہا کہ بینچ کے سائز پر ہمارا اعتراض ہے، بینچ بڑا ہونا چاہیے تھا، 103 ملزمان زیرِ حراست ہیں، ان کے اہلِ خانہ عدالتی کارروائی میں شامل ہونا چاہتے ہیں، عدالت اہلِ خانہ کو سماعت دیکھنے کی اجازت دے۔

جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کمرۂ عدالت بھرا ہوا ہے، انہیں کہاں بٹھائیں گے؟ عدالت آنے پر اعتراض نہیں، ان کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔

9 رکنی بینچ بنانے کی استدعا

اس موقع پر جواد ایس خواجہ کے وکیل نے 9 رکنی بینچ بنانے کی استدعا کر دی اور کہا کہ اس کیس میں یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ فیصلے کا دار و مدار بینچ کی تشکیل پر تھا، یہ سوال باقی نہیں رہنا چاہیے کہ 9 رکنی بینچ ہوتا تو فیصلہ مختلف ہوتا، یہ اس ادارے پر عوام کے اعتبار کا معاملہ ہے، عدالت کمیٹی کو 9 رکنی بینچ تشکیل دینے کا کہے۔

KPK حکومت کی اپیلیں واپس لینے کی استدعا

خیبر پختون خوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینےکے خلاف اپیلیں واپس لینے کی استدعا کر دی۔

خیبر پختون خوا حکومت کے وکیل نے صوبائی کابینہ کی قرارداد عدالت میں پیش کر دی اور کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلیں واپس لینا چاہتے ہیں۔

خیبر پختون خوا حکومت کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ نے استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ قرارداد پر تو اپیلیں واپس نہیں کر سکتے، مناسب ہو گا کہ اپیلیں واپس لینے کے لیے باضابطہ درخواست دائر کریں۔

درخواست گزاروں کا نجی وکلاء پر بھی اعتراض

فوجی عدالتوں کے خلاف درخواست گزاروں نے نجی وکلاء پر بھی اعتراض کر دیا ۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سرکاری اداروں کی جانب سے اٹارنی جنرل نے 5 اپیلیں دائر کر رکھی ہیں، بعض وزارتوں کی جانب سے نجی وکلاء کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اٹارنی جنرل نے خود اپیلیں دائر کی ہیں تو عوام کا پیسہ نجی وکلاء پر کیوں خرچ ہو؟

وکیل خواجہ احمد حسین نے کہا کہ بینچ کی تشکیل کے لیے مناسب ہو گا کہ معاملہ دوبارہ ججز کمیٹی کو بھیجا جائے، پہلے بھی 9 رکنی بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلے 9 رکنی بینچ بن جاتا تو آج اپیلوں پر سماعت ممکن نہ ہوتی۔

وکیل احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دے کر ٹرائل کالعدم قرار دیا، 6 رکنی بینچ اگر اسے 4-2 سے کالعدم قرار دے تو متنازع ہو جائے گا، عدلیہ پر عوامی اعتماد کے لیے ضروری ہے کہ فیصلہ متنازع نہ ہو، ایسا تاثر نہ جائے کہ بینچ کی تشکیل سے ہی فیصلہ واضح ہو۔

زیرِ حراست افراد کے مقدمات کی تفصیلات طلب

عدالتِ عظمیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل زیرِ حراست افراد کے مقدمات کی تفصیلات داخل کریں، 103 افراد میں سے کتنے افراد کی بریت بنتی ہے، کتنے لوگ بے گناہ ہیں؟

جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا ملزمان میں کسی کی رہائی ہوئی ہے یا ہوسکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹرائل مکمل ہو چکا ہے لیکن ابھی فیصلے نہیں سنائے گئے۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کہ کچھ کیسز بریت کے ہیں کچھ کی سزائیں مکمل ہو چکی ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ ایسے ملزمان ہیں جن کی گرفتاری کا دورانیہ سزا میں تصور ہو گا، سپریم کورٹ کے حکمِ امتناع کی وجہ سے بریت کے فیصلے نہیں ہو سکے۔

وکیل سلمان اکرم راجہ نے استدعا کی کہ بریت پر کوئی حکمِ امتناع نہیں تھا، جو ملزمان بری ہو سکتے ہیں ان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ جو ملزمان بری ہو سکتے ہیں انہیں تو کریں، باقی کی قانونی لڑائی چلتی رہے گی، اصل مقصد یہ ہے کہ جو رہا ہو سکتے ہیں وہ تو ہو جائیں۔

سماعت 28 مارچ تک ملتوی

سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جمعرات 28 مارچ تک ملتوی کر دی۔

عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا

23 اکتوبر 2023ء کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سویلینز کا ملٹری ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 4-1 کے تناسب سے اکثریتی فیصلہ سنایا تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

فیصلے میں آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کی ذیلی شقیں 1 اور 2 کالعدم قرار دی گئی تھیں۔

فیصلے میں آرمی ایکٹ کا سیکشن 59 (4) بھی کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ 9 اور 10 مئی کے ملزمان کا ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہو گا، سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی۔

13 دسمبر 2023ء کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کیا تھا۔

فیصلے کے خلاف نگراں وفاقی حکومت، وزارتِ دفاع اور وزارتِ قانون سمیت 17 اپیلیں دائر کی گئیں۔

سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواست گزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن، کرامت علی اور بانیٔ پی ٹی آئی ہیں۔

قومی خبریں سے مزید