• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایف بی آر کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کتنا موثر؟

ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی کم شرح اور متضاد پالیسیوں کی بنا پر آمدنی کا خسارہ اور بے تحاشہ ٹیکس چوری جیسے مسائل ہمیشہ سے ہر حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں رہے۔حالیہ برسوں میں حکومتی سطح پر ان مسائل کا سنجیدگی سے ادراک کیا گیا ہے اور حکومت ایسے مسائل سے نمٹنے کیلئے آٹو میشن کو کلیدی سمجھتی ہے۔ اسی تناظر میں ایف بی آر کی جانب سے ہر سال جدید سافٹ ویئرز اور نئے ٹولز متعارف کروائے جاتے رہے ہیں لیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح تاحال محض 10فیصد کے ارد گرد ہے جو عالمی بینک کی جانب سے تجویز کردہ 15فیصد سے بہت کم ہے ۔

ٹریک اینڈٹریس سسٹم بھی ایسا ہی ایک ٹول ہے جسے ایف بی آر نے ایکسائز ٹیکس کی بہتر وصولی کیلئے متعارف کروایا تھا۔ دیگر تمام آٹومیشن اقدامات کی طرح اس نظام کا مقصد بھی متعدد شعبوں جیسے سیمنٹ، چینی، تمباکو، کھاد اور حال ہی میں شامل کئے گئے ٹائلز کے شعبے میںٹیکس چوری کو ختم کرناہے۔ ایف بی آرکے مطابق محصولات میں اضافے، جعلسازی کو کم کرنے اور اشیاء کی سمگلنگ کو روکنے کیلئے اس نظام کو یکم جولائی 2021ء کو متعارف کروایا گیا تھا۔

تاہم ڈھائی سال بعد بھی اندازوں کے برعکس اس نظام کے نفاذ کی رفتار نہایت مایوس کن رہی ۔ سیمنٹ کا شعبہ اس نظام کی آزمائش سے گزر چکا ہے اور اسے اپنے شعبے میں اس نظام کو کلی طور پر لاگو کرنے کیلئے رواں سال اپریل کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے ۔تمباکو سیکٹر کی 40میں سے محض دو کمپنیوں نے اپنے سسٹم میں اس نظام کو مکمل طور پر نافذ کر لیا ہے ۔ایک اور کمپنی نے اس نظام کو جزوی طور پر نافذ کر دیاہے جبکہ 6کمپنیاں خود کار طریقے کی بجائے ہاتھوں سے ٹیکس سٹیمپ لگا رہی ہیں۔

کمپنیوں کی جانب سے غیر خودکار طریقے سے ٹیکس سٹیمپ لگانے کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ مختلف شعبوں میں تکنیکی تفریق پر نہایت محدود تحقیق کے بعد ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو متعارف کروا دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان شعبوں میں کام کرنیوالی مختلف کمپنیوں کے مابین تکنیکی حجم کے فرق کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور سب ہی کمپنیوں اورسب ہی شعبوں کیلئے ایک ہی جیسا نظام نافذ کر دیا گیا۔

خودکار ٹیکس سٹیمپ کے معاملے میں بھی ہر صنعت کا طریقہ کار دوسری صنعت سے قطعی مختلف ہوتا ہے ۔مثال کے طور پر کھاد کی صنعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ 85سے 90فیصد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ٹرک یا گاڑی پر کھاد کے لادے جانے والے ہر 100تھیلوں میں سے 10سے 15تھیلے ایسے لادے جاتے ہیں جن پر مطلوبہ ٹیکس سٹیمپ دستی طور پر چسپاں نہیں کی جاتی ۔

ایک اور مسئلہ جس کا تعلق خاص طور پر تمباکو کے شعبے سے ہے، وہ ہے ٹیکس سٹیمپس کا کوریج ایریا، کیونکہ ایسی بہت سی تمباکو کمپنیاں جو بڑی تعداد میں ڈیوٹی ادا کئے بغیر سگریٹ بیچ رہی ہیں وہ آزاد جموں و کشمیر میں اپنا کاروبار کر رہی ہیں اور ملک کا یہ حصہ ایف بی آر کے دائرہ کار سے باہر ہے ۔اس ضمن میں پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے ٹیکس سے متعلقہ محکموں کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں تاہم کوئی خاطر خواہ پیشرفت دیکھنے میں نہیں آئی ۔

ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ملک گیر عملدرآمد میں تاخیر، ٹیکس سٹیمپ کا دستی اطلاق، نظام کا غیر موثر ہونا اور اس کے دائرہ کار سے متعلقہ لاتعداد مسائل کے ہوتے ہوئے لگتا ہے کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم آنے والے کچھ برسوں میں مکمل طور پر غیر موثر ہو جائے گا ۔

ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرنیوالے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ چینی اور تمباکو کی صنعتوں میں اس نظام کے نفاذ سے محصولات میں اضافہ ہوا ہے تاہم یہ خیال قائم کرنا کہ محصولات میں اضافہ ٹیکس سٹیمپس کی بدولت ہوا ہے کہ یہ تاحال بہت مشکل ہے۔ تمباکو سیکٹر کے معاملے میں مثال کے طور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرنے والے اس آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اس نظام کے متعارف کرنے سے رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں محصولات میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم یہی آرٹیکل یہ بھی کہتا ہے کہ محصولات میں اضافے کے پیچھے دو عوامل کار فرما ہیں، پچھلے بجٹ میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں نمایاں اضافے کے ساتھ ساتھ سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا تھا۔

تمباکو سیکٹرمیں اس خود کار نظام کو متعارف کرنے سے قبل رائج قوانین کے موثر نفاذ سے غیر قانونی تجارت کی بیشتر قسموں کا بخوبی تدارک کیا جاسکتا تھا۔ پاکستان میںسگریٹ کے تمام پیک چاہے مقامی طور پر تیار کردہ ہوں یادرآمد کئے گئے ہوں ان پر ملکی قوانین کے عین مطابق صحت سے متعلق تنبیہہ اور قیمت پرنٹ ہونی چاہیے۔ سمگل شدہ سگریٹ پیک جو گزشتہ کئی سال سے ملک بھر کی مارکیٹوں میں باآسانی دستیاب ہیں انہیں شناخت کرنا قطعی مشکل نہیں۔ اسی طرح غیر ڈیوٹی ادا شدہ سگریٹ جب قانونی طور پر مقرر کردہ قیمت سے کم قیمت پر مارکیٹوں میں دستیاب ہوں گے تو پرچون کی سطح پر ان کی شناخت کرنا بھی کٹھن کام نہیں اور اسکے ذریعے ان کمپنیوں تک باآسانی پہنچا سکتا ہے ۔ تاہم جب تک حکومت کی جانب سے نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کے باوجود پہلے سے رائج قوانین کا موثر نفاذ نہیں کیا جاتا مثبت پیش رفت دیکھنے میں آئے گی۔

اب جبکہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو تمباکو کے شعبے میں جزوی طور پر لاگو کردیا گیا ہے، اس وقت بھی چھاپوں اور دیگر طریقوں سے ٹیکس چوری کو روکنے کی کوششیں جاری ہیں بجائے اس کے کہ ڈیٹا کی بنیاد پر کوئی موثر طریقہ کاراپنا نے پر غور کیا جائے۔

قطعی انکار نہیں کہ ٹیکس کی موثر وصولی اور چوری کی روک تھام کیلئے ہمیں جدید ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی جانب بڑھنا چاہیے لیکن سمجھنے کی بات یہ بھی ہےکہ ٹیکنالوجیز محض ٹولز ہیں جنہیں صنعتوں کے منفرد تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے متعلقہ تمام کمپنیوں پر لاگو کرنے کی ضرورت ہے اور ان ٹولز کی پشت پر قوانین کا سخت نفاذ کارفرما ہونا چاہیے۔ نہیں تو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم جیسی جتنی مرضی ٹیکنالوجیز اختیار کرلی جائیں، وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی افادیت کھوتی جائیں گی اور مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں ہو سکیں گے۔

( مصنف ان لینڈ ریونیو سروس کے سابق افسر اور ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں)

تازہ ترین