پاکستان میں اس وقت ٹیکس چوری عروج پر ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اس دھندے میں شامل ہیں، کروڑوں روپے کا غیر قانونی کاروبار ہورہا ہے ۔ اسی میں ایک شعبہ تمباکو نوشی بھی ہے۔ملک میں سگریٹ کی غیر قانونی فروخت ایک وسیع مسئلہ بنی ہوئی ہے جس پر برسوں سے لکھا اور بولا جارہا ہے مگر کوئی اس مسئلے کو حل کرنے کا نہیں سوچتا ، اور اس کے نتیجے میں حکومتی محصولات کے ساتھ ساتھ صحت عامہ پر بھی نقصان دہ اثر پڑتا ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی تازہ ترین مارکیٹ رپورٹ، جو 12 مارچ کو جاری کی گئی، نے اس مسئلے کو کچھ تفصیل سے اجاگر کیا۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی پنجاب میں اسمگل شدہ، ٹیکس سے بچ جانے والے اور جعلی سگریٹ برانڈز کی فروخت میں تقریباً 60 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔سوال یہ بنتا ہے کہ اس کی روک تھام کیسے ممکن ہو اور سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگانے والوں تک کیسے پہنچا جائے ؟ اگرچہ ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ یقینی طور پر صارفین کو سستے، ٹیکس سے بچ جانے والے اور اسمگل شدہ سگریٹ کی طرف جانے کی ترغیب دینے کا ایک عنصر رہا ہے، لیکن یہ متعلقہ ریگولیٹری اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوتاہی ہے کہ وہ جعلی سگریٹ اور اسمگل شدہ سگریٹ پر نہ صرف ہاتھ ڈالنے سے انکاری ہیں بلکہ بعض لوگ اس دھندے میں ملوث لوگوں کی مبینہ کمان بھی کرتے ہیں۔ آپ کراچی یا لاہور ایئرپورٹ پر کھڑے ہوجائیں اور جائزہ لیں تو آپ کو بہت کچھ سمجھ آجائیگا کہ ملک میں اسمگلنگ میں کون اور کیسے ملوث ہے۔ بعض کسٹم افسران سگریٹ کے علاوہ مہنگی شراب بیرون ملک سے پاکستان لانے والوں کی سہولت کاری بھی کرتے ہیں۔ ان کی خراب کارکردگی ایک ایسی صورتحال کا باعث بنی ہے جہاں حکومت کی طرف سے 127.44روپے کے سگریٹ کے پیکٹ کی کم از کم قیمت کو آزادانہ طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، اور زیادہ تر برانڈز 80سے 130 روپے تک کی قیمتوں پر فروخت ہو رہے ہیں۔اسکے علاوہ، سگریٹ کی تجارت کی نگرانی کرنے والے قوانین جو انعامی اسکیموں کی پیشکش پر پابندی لگاتے ہیں، کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، جس سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے کیونکہ بیرون ملک سے اسمگل کیا گیا سگریٹ جب 100 روپے سے کم قیمت میں دستیاب ہے تو پاکستان میں بننے والا سگریٹ لوگ کیوں استعمال کریں گے۔ اس سے قومی خزانے کو بھی نقصان ہورہا ہے اور عوامی صحت کا بھی۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ FBR نے جولائی 2022 میں تمباکو کے شعبے میں جو بہت زیادہ ٹیکنالوجی پر مبنی سرویلنس ٹریک اینڈ ٹریس (T&T) سسٹم متعارف کرایا تھا وہ مطلوبہ اثر ڈالنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نظام کا مقصد تمباکو کی جعلی تجارت کا مقابلہ کرنا تھا جس کے ذریعے پروڈکشن کے مرحلے پر سگریٹ کے پیک پر ڈاک ٹکٹ اور بارکوڈز چسپاں کیے گئے تھے، جس سے ایف بی آر کو پوری سپلائی چین میں اشیاء کو ٹریک کرنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ تاہم، جنوبی پنجاب میں فروخت کیے جانے والے غیر قانونی سگریٹوں میں T&T ڈاک ٹکٹ اور گرافک ہیلتھ وارننگز دونوں کی کمی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاپروائی اور غفلت کے نتیجے میں پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو پہلی بار متعارف کرائے جانے کے 18 ماہ گزرنے کے باوجود، سگریٹ بنانے والوں کی اکثریت نے ابھی تک اسے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مسئلہ صرف اسمگل شدہ سگریٹ نہیں بلکہ چند کمپنیاں ٹیکس چوری بھی کر رہی ہیں۔
پچھلے سال نومبر تک، پاکستان میں کام کرنے والے تقریباً 40یا اس سے زیادہ مینوفیکچررز میں سے صرف دو نے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو مکمل طور پر نافذ کیا تھا، جب کہ ایک نے اسے جزوی طور پر نافذ کیا تھا۔اس صورتحال سے غیر قانونی شعبے کا مارکیٹ شیئر مالی سال 2021-22 میں 37فیصد سے بڑھ کر موجودہ مالی سال کے اختتام تک تقریباً 63 فیصد ہو جائے گا، جس سے اس مالی سال میں تقریباً 400 بلین روپے کا ممکنہ مالی نقصان ہو گا۔ یعنی 400 ارب روپے جو حکومت کو ٹیکس کی صورت میں ملنے تھے وہ اب نہیں ملیں گے۔ حکومت کو پی آئی اے اور اسٹیل ملز کا خسارہ نظر آتا ہے لیکن ٹیکس اور تمباکو نوشی کی صنعت سے جڑے ٹیکس چوروں پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتی ہے۔ اگرچہ سگریٹ انڈسٹری میں ٹریک اور ٹریس نظام یقینی طور پر ٹیکس بڑھانے اور آمدنی میں اضافے کے چیلنجوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے واضح طور پر ایک زیادہ جامع طریقہ کار کی ضرورت ہے ۔