تحریر: ڈاکٹر نعمان برلاس۔نیوکاسل وہ شرارتی نظروں سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے مسلسل ایک ہی جملہ بول رہے تھے ’’کل اک تماشہ ہوئے گا کوئی ہنسے گا کوئی روئے گا‘‘۔ ویسے عام زندگی میں سنجیدہ طبیعت ہونے کے ساتھ ساتھ 70 اور 80کی دہائی میں ان کا شمار ضلع جہلم کی مشہور اور اعلی تعلیم یافتہ سیاسی شخصیات میں ہوتا تھا جو اپنے شہر اور ملک کے نظام کو بدلنے کا عزم لئے اپنا تن من دھن لگائے بیٹھے تھے۔ اس سب کے باوجود ہر سال 30 مارچ کو ان پر یہ شرارت عود آتی تھی۔ آج سے چار، پانچ دہائیاں پہلے طالب علموں اور ان کے والدین کی نظرمیں 31مارچ کو سالانہ امتحان کے نتیجے کا مقررہ دن ہونے کی وجہ سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا تھا۔ہر کسی کو اس دن کا بیتابی سے انتظار ہوتا تھا۔ جہاں ایک طرف نکمے طالب علم اپنی کامیابی کے لئے پریشان نظر آتے تھے تو دوسری طرف پڑھنے لکھنے والے اس فکر میں مبتلا ہوتے تھے کہ وہ مطلوبہ پوزیشن حاصل کر سکیں گے یا نہیں، یعنی ہر کوئی اپنی تعلیمی قابلیت کے مطابق کامیابی کا خواہاں اور متمنی نظر آتا تھا اس کے لئے دوا چاہے نہ کرے مگر دعا ضرور کرتا تھا۔اس ضمن میں ان دنوں میں ایک مصرعہ جو بہت سے طالب علموں کو بالعموم اور نکمے طالب علموں کو باالخصوص از بر ہوتا تھا کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں ۔ اسے طالب علم کی التجا کا عنوان دیا جا سکتا ہے ۔ مصرعہ کچھ اس طرح تھا ’’خزانے کی چابی تیرے پاس ہے اگر پاس کر دے تو کیا با ت ہے ‘‘ نتیجے کے دن محلے اور گھروں میں عید کا سا ساماں ہوتا تھا لوگ ، رشتہ دار ایک دوسرے کے بچوں کا نتیجہ خوشی، جستجو اور مقابلے کی غرض سے پوچھتے نظر آتے تھے، نتیجے کے بعد کچھ کے چہرے ہنستے مسکراتے اور کچھ کے چہرے اترے دکھائی دیتے تھے، ناکام ہونے والے کا چہرہ پاس ہونے کا جھوٹ بولتے ہوئے اس کا ساتھ نہ دیتا تھا، ہاں تو اب ایسا بھی نہیں تھا کہ آغاز میں لکھا جملہ دہراتےہوئے انھیں بچوں کی کامیابی پر شک ہو مگر یہ ان کی تعلیم سے محبت اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا انداز تھا پھر اگلے دن وہ کھل کر کامیاب بچوں کی حوصلہ افضائی میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے، ملک اور شہر کا نظام تو کوئی خاص بدلا نہیں مگر انھوں نے بعد ازاں اپنی سیاسی سرگرمیوں کے عوض کئی سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے اپنا ہی رستہ تبدیل کر لیا اور توجہ اپنے شہر میں تعلیم کے فروغ پر صرف کی اور اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی، ان کے ادارے سے فارغ التحصیل طلباء نہ صرف اندرون، بیرون ملک بلکہ نیو کاسل میں بھی اچھی حیثیت میں کام کر رہے ہیں، چاہے سالانہ امتحان ہو یا کوئی اور میدان دنیا میں ہر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے اور نا کامی سے ڈرتا ہے، کامیاب ہونے والا خوشی سمیٹتا ہے جب کہ مایوسی ناکام ہونے والے کا مقدر ٹھہرتی ہے، کامیابی کیا ہے، اس کا مطلب و معانی ہر ایک کے لئے مختلف ہو سکتا ہے ایک طالب علم کے لئے امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہونا کامیابی ہے۔ ایک ڈاکٹر کے لئے اچھا یا مشہور ڈاکٹر بننا، سیاستدان کے لئے اقتدار کا حصول ہی کامیابی ہے، کسی کا حدف یا سوچ ہی اسکی کامیابی کے معیار کا تعین کرتا ہے،گوگل کے مطابق کسی طے کردہ مقصد کا حصول کامیابی ہے، مادی دنیا کے حساب سے دیکھیں تو معاشی خوشحالی کو ہی کامیابی تصور کیا جاتا ہے، یہ کامیابیاں انسان کو خوشی اور طمانیت بخشتی ہیں مگر دیر پا ثابت نیں ہوتیں،حاصل کنندہ پھر ویسی ہی خوشی حاصل کرنے کے لئے اگلی منزل کی طرف چل نکلتا ہے۔ اس کے بر عکس مسلمان کا معاملہ مختلف ہے کیونکہ اسے اس دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی دنیا کی کامیابی بھی مقصود ہے۔ دل میں خیال ہوا کہ دیکھیں قرآن میں کامیابی کے لئے کون سا لفظ استعمال ہوا ہے اور کامیابی کا قرآنی تصور کیا ہے۔ عربی زبان میں 99فیصد سے بھی زیادہ فعل کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ کا مادہ حروف الھجاء یعنی حروف تہجی پر مشتمل کسی بھی تین حروف پر ہوتا ہے۔ اس طرح کامیابی کےلئے استعمال ہونے والے لفظ کا مادہ فاز ہے۔ فاز کے معنی کامیاب ہونا اور پھر اسی مادے سے بننے والے الفاظ جیسا کہ ’’فوز‘‘جس کا مطلب کامیابی جب کہ ’’فائز‘‘کامیاب ہونے والا کے معنی میں آتا ہے۔ قرآن میں ان تینوں الفاظ کے علاوہ بھی اسی مادے سے بننے والے متعدد الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ لفظ فوز کو دوسرے لفظ عظیم کے ساتھ ملا کے مرکب توصیفی کی شکل میں الفوزالعظیم یا مختصراً فوز العظیم بنا کےبارہا لایا گیا ہے یعنی بہت بڑی کامیابی، اس کے سیاق میں جایا جائے تو ہر بار اس سے پیشتر آیات عظیم کامیابی کی یہ خوش خبری اسی کو دیتی ہیں جو جہنم کی آگ سے بچ کر جنت میں جا پہنچا۔ یعنی جنت میں پہنچنے کو ہی بڑی کامیابی قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ النساء آیت 13, سورہ المائدہ آیت119, سورہ التوبہ آیت 89اور آیت 100,سورہ الصف آیت 12 اور سورہ التغابن آیت 9. یہ جنت عمل صالح کے عوض اور رب تعالیٰ کی رحمت سے ملے گی۔ ایمان کے حصول کے بعد نیک اعمال کا علم اور طریقہ ہمیں قرآن اور سیرت نبوی سے حاصل ہو گا۔ لہٰذا انہیں اپنانے میں ہی سمجھ داری ہے۔ اسلام مجموعی نقطہ نظر کا داعی ہے، دین اور دنیا ساتھ لے کر چلنے کا درس دیتاہے۔ دنیاوی کامیابی کا وہ رستہ اپنانے کا درس دیتا ہے جو حتمی یعنی اخروی کامیابی پر منتج ہو تا کہ نتیجے کے دن چہرہ چچا کے جملے کے مطابق ہنستا مسکراتا اور خنداں و شاداں ہو نہ کہ روتا ، بجھا اور گرد آلود، سورہ 80 آیات 38 تا 40 “اس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے۔ جو ہنستے اور ہشاش بشاش ہوں گے۔اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔ جن پر سیاہی چڑھی ہو گی۔