پاکستان میں ایرانی سفارتخانے نے اسرائیل پر ایرانی حملے کے حقائق جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل پر حملے کا مقصد مقبوضہ فلسطین میں فوجی اڈوں کو نشانہ بنانا تھا، کسی شہری، غیر فوجی مراکز بشمول شہروں، اسپتالوں، عبادت گاہوں، انفرااسٹرکچر وغیرہ کو نشانہ نہیں بنایا۔
ترجمان ایرانی سفارتخانہ کے مطابق صیہونی حکومت کیخلاف ایران کی عسکری کارروائی ایک متناسب فوجی کارروائی تھی، کارروائی یو این چارٹر کے آرٹیکل 51 کے مطابق دفاع کے موروثی اور جائز حق کے فریم ورک کے اندر کی گئی تھی۔
ایرانی سفارتخانے کے ترجمان نے کہا کہ کارروائی دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے قونصلر سیکشن کو نشانہ بنانے والے صیہونی حکومت کے فوجی حملے کے جواب میں تھی۔
اسرائیل کی جانب سے دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے قونصلر سیکشن پر کیے گئے حملے میں 7 ایرانی فوجی مشیروں کی شہادت ہوئی جو شامی حکومت کی سرکاری دعوت پر شام میں موجود تھے۔
ترجمان ایرانی سفارتخانہ نے بتایا کہ صیہونی حکومت کا یہ اقدام 1961 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے، 1973 کے نیویارک کنونشن اور دیگر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران یو این کے چارٹر کے اصولوں اور اہداف کی پاسداری پر زور دیتا ہے، ایران طاقت کے کسی بھی غیرقانونی استعمال اور جارحیت کیخلاف اپنی خودمختاری، علاقائی سالمیت اور قومی مفادات کا دفاع کرنے کے عزم پر زور دیتا ہے۔
ایرانی سفارتخانے کے ترجمان نے بتایا کہ ایران کا اپنے دفاع کے حق کو استعمال کرنے کیلئے جائز دفاعی اقدامات ایک ذمہ دارانہ رویے کے عکاس ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ صیہونی حکومت غزہ کے بے گناہ لوگوں کی نسل کشی اور قتل عام کر رہی ہے، ایران بارہا کہہ چکا ہے کہ وہ اپنے اصولی ڈھانچے میں خطے میں جنگ اور کشیدگی کے دائرہ کار کو بڑھانے کی کوشش نہیں کرتا، ایران نے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
ایرانی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال حل کرنے کی کلید غزہ میں جنگ کا فوری خاتمہ اور جنگ بندی ہے، موجودہ صورتحال حل کرنے کی کلید جنگ زدہ علاقوں میں انسانی امداد کی آزادانہ روانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کا ردعمل کم سے کم اور کم سے کم حد تک تھا، ایرانی ردعمل زیادہ سخت ہوسکتا تھا۔
ترجمان ایرانی سفارتخانے کا مزید کہنا تھا کہ اگر صیہونی حکومت دوبارہ یہی کام کرتی ہے تو اس بار ایرانی ردعمل زیادہ سخت اور فیصلہ کن ہوگا۔