علامہ اقبال کی مثنوی اسرار ِ خودی کی اشاعت کے بعد جو تنازع شروع ہوا وہ اس لحاظ سے دل چسپ ہے کہ اس میں بعض مشاہیرِ ادب کا بھی ذکر آتا ہے بلکہ ان کا عجیب کردار بھی سامنے آتا ہے۔ علامہ اقبال کے یوم وفات کے موقع پر، غلام رسول مہر ، رینالڈ نکلسن اور بعض دیگر اہل علم نے اسرار ِ خودی پر جو بحث کی تھی اس کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں۔
٭اسرارِ خودی اور رموز ِ بے خودی
پہلے مثنوی اسرار ِ خودی اور اس کے تسلسل میں لکھی گئی اقبال کی دوسری مثنوی رموز ِ بے خودی سے متعلق بنیادی باتیں ذہن میں تازہ کرلیں۔ اقبال کی فارسی مثنوی اسرارِ خودی پہلی بار لاہور سے ستمبر ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔ اس مثنوی میں اقبال نے خودی سے متعلق اپنے فلسفیانہ خیالات جو گہرے غور و فکر کا نتیجہ تھے پیش کیے اور اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ خودی کس طرح کسی فرد کی قلب ِ ماہیئت کرسکتی ہے۔ پروفیسر رینالڈ نکلسن ایک معروف مستشرق تھے۔ انھوں نے اسرارِ خودی کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو ۱۹۲۰ء میں شائع ہوا اور اس طرح اقبال کی یہ مثنوی اور ان کے خیالات دور دور تک پہنچ گئے۔
اقبال کی فارسی مثنوی رموز ِ بے خودی کو ایک طرح سے اسرارِ خودی کا دوسرا حصہ سمجھنا چاہیے۔ یہ لاہور سے ۱۹۱۸ء میں شائع ہوئی۔ نکلسن نے اسرار ِ خودی کے اپنے ترجمے پرتعارف میں لکھا ہے کہ اسرارِ خودی کا تعلق ایک مسلمان کی انفرادی زندگی سے اور رموز ِ بے خودی کا پوری مسلم قوم سے ہے۔ ان دونوں مثنویوں کو ۱۹۲۳ء میں اسرار و رموز کے عنوان سے یک جا شائع کیا گیا۔
٭اقبال کی تنقید، صوفی شاعروں پر
اب آتے ہیں اس جھگڑے یا تنازع کی طرف جو اسرار ِ خودی کی اشاعت سے شروع ہوا۔
اسرار ِ خودی میں اقبال نے ایک ایسی دنیا کا تصور پیش کیا ہے جس میں تمام مسلمان اللہ اور اس کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کی محبت کی بنیاد پر متحد ہوں۔ اقبال کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے مسلمانوں کو خودی پر انحصار کرنا ہوگا اور عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ لیکن اس عمل کی بنیاد ’’جوع الارض‘‘ (لفظی معنی ہیں :زمین کی ہوس )پر نہیں ہوگی یعنی ملکوں پر قبضہ کرکے دنیا کو تسخیر کرنا مقصد نہیں ہوگا۔
اقبال نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی پس ماندگی کا سبب وہ فلسفہ ہے جو مسلمانوں کے ذہنوں میں بعض قدیم فلسفیوں اور صوفی شاعروں نے بٹھایا ہے ۔ صوفی شاعر وں کی خود کو فنا کرنے کی مریضانہ تعلیم سے بے عملی اور ترک ِ دنیا کے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور یہی فلسفہ مسلمانوں کے زوال کی بڑی وجہ ہے۔
مثنوی کے مقدمے میں اقبال نے خیال ظاہر کیا کہ صوفی شاعر مسلمانوں کو ترک ِ عمل پر اکساتے ہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گوشہ نشین ہوجاؤ جیسا کہ قدیم زمانے کے بعض ہندو فلسفیوں نے بھی زور دیا ہے۔ اقبال کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو’’ ترک ‘‘کی نہیں ’’عمل ‘‘کی ضرورت ہے۔اقبال نے کہا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ مغربی مفکرین سے سیکھیں کہ سائنسی مشاہدے کے اصول کیا ہیں اور فطرت کی قوتوں کی کیسے توجیہہ و تشریح کی جائے۔ اسی روشنی میں مسلمانوں کو اپنی فلسفیانہ روایات پر نظر ِ ثانی کرنی چاہیے۔
اقبال نے فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی پر بھی تنقید کی اور ساتھ ہی فلسفہ ٔ وحد ت الوجود پر بھی اعتراض کیا (کیونکہ صوفیانہ شاعری میں وحدت الوجود پر مبنی خیالات بکثرت پائے جاتے ہیں)۔ دراصل وحدت الوجود پر شرک کا شائبہ ہوتا ہے جبکہ اسلام کی بنیاد خالص توحید کے تصور پر ہے۔
اقبال کا خیال تھا کہ بعض ایرانی شاعروں نے وحدت الوجود کے بارے میں خطرناک حد تک حسین و جمیل نکتہ طرازیاں کیں اور اس شاعری کا یہاں تک اثر ہوا کہ تقریباً تمام اسلامی دنیا ذوقِ عمل سے محروم ہوگئی اور ان میں کم ہمتی پیدا ہوگئی جبکہ خودی احساسِ ذات کا نام ہے اور اس کا مقصد عمل کی قوتوں کو بیدار کرنا ہے۔
اسرا رِ خودی کے پہلے ایڈیشن میں شامل بعض اشعار خاص طور پر حافظ شیرازی کے بارے میں ہیں، مثلاً اقبال کہتے ہیں:
ہوشیار از حا فظ ِ صہبا گسار
جامش از زہر ِ اجل سرمایہ دار
(یعنی پینے والے حافظ سے ہوشیار ، اس کا جام سرمایہ داروں کے زہرِ اجل میں سے ہے )
اس میں ایک شعر یہ بھی ہے :
آں فقیہہِ ملتِ مے خوارگاں
آں امامِ امتِ بے چارگاں
(وہ یعنی حافظ پینے والوں کی قوم کا فقیہہ ہے او روہ بے چاروں کی امت کا امام ہے)
اس کے بعد کہا کہ حافظ شیرازی سے بچ کر رہنا۔وہ جادو بیاں ہے اور عیش و مستی کی تعلیم دیتا ہے۔ دراصل حافظ نے اپنی شاعری میں شراب، مے خانے، ساقی اور ان سے متعلقہ علامات کو صوفیانہ افکار کو پیش کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اقبال کا ہدف وہ شاعری بھی تھی جو بے مقصد اور مضر تھی۔ اقبال بے عملی ، بے چارگی اور ترک ِ دنیا کو مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے تھے۔
٭ جھگڑا
اسرارِ خودی کی اشاعت کے بعد ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ اقبال کے حافظ شیرازی سے متعلق اشعار، صوفیانہ خیالات پر تنقید اور وحدت الوجود پر اعتراض ، یہ سب باتیں ان لوگوں پر بہت گراں گزریں جو حافظ کی شاعری کے پرستار ، تصوف کے معتقد اور وحدت الوجود کے قائل تھے۔کچھ لوگ حافظ شیرازی کو صوفی بزرگ بھی سمجھتے تھے۔ ہر طرف شور مچ گیا ۔ اقبال کو صوفیوں اور تصوف کا دشمن قرار دیا گیا ۔
حالانکہ اقبال مولانا روم جیسے عظیم صوفی اورشاعرکو اپنا مرشد قرار دیتے تھے بلکہ اسرار ِ خودی کی تخلیق کے محرکات میں مولانا روم کی مثنوی اور ان کے افکار بھی شامل ہیں۔ اسی طرح اقبال نے مثنوی اسرار ِ خودی میں حضرت سید علی ہجویری ؒ کی ایک حکایت بھی پیش کی ہے اور ان کے بارے میں یہ شعر بھی اس میں شامل ہے:
سیدِ ہجویر مخدومِ امم
مرقدِ او پیرِ سنجر را حرم
یعنی سید علی ہجویریؒ (المعروف بہ داتا گنج بخش) قوموں کے مخدوم ہیں اور ان کامزار پیر ِ سنجر (یعنی حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ) کے لیے محترم تھا (کیونکہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒنے داتا گنج بخش کے مزار پر قیام کیا تھا اور روایت ہے کہ چلّہ بھی کاٹا تھا)۔
مثنوی میں اس حکایت میں ایک نوجوان کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو حضرت سید علی ہجویری ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں دشمنوں کے درمیان گھِرا ہوا ہوں، مجھے دشمنوں کے درمیان زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھا دیجیے ۔ تو حضرت نے فرمایا کہ تیرے اندر ایک خوابیدہ طاقت ہے، اسے بیدار کر۔ جب پتھر خود کو شیشہ سمجھ لے تو شیشے ہی کی طرح ٹوٹنے لگتا ہے۔ گویا خود کو پہچان،اپنی خودی کو بیدار کر اور عمل کر۔
اقبال کے ان خیالات سے واقف ہونے کے بعد کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اقبال تصوف کے یا صوفیوں کے مخالف تھے؟ دراصل اقبال اس مریضانہ تصوف کے خلاف تھے جو مسلمانوں میں کم ہمتی ، ترک ِ دنیا اور بے عملی پیدا کرنے اور ان کے زوال کا سبب تھا۔
٭معترضین اور اقبال کا جواب
لیکن اقبال کی مخالفت کرنے والوں نے اقبال کو تصوف ہی کا مخالف سمجھ لیا۔ اقبال کی تردید میں ایک مثنوی لکھی گئی اور ایک کتابچہ بھی چھپا۔خواجہ حسن نظامی (جو خود صوفی تھے)کو اسرارِ خودی پر شدید اعتراض ہوا اورانھوں نے اس کے خلاف متعدد مضامین اور خطوط لکھے ۔ اکبر الہٰ آبادی بھی ان کے ہم نوا ہوگئے۔
حسن نظامی نے شاہ محمد ذوقی سے بھی کہا کہ اقبال کی مثنوی اور ان کے افکار کے خلاف آواز بلند کیجیے۔اقبال اور ان کی مثنوی کے بارے میں کئی سوال اٹھائے گئے۔ اقبال نے اس کے جواب میں کچھ مضامین لکھے اور حسن نظامی، اکبر الہٰ آبادی اور بعض دیگر مشاہیر کو خطوط لکھ کر وضاحتیں کیں۔کچھ اہلِ قلم نے نے اقبال کا دفاع بھی کیا، خاص طور پرمولانا اسلم جیراج پوری نے اردو میں ایک عمدہ تبصرہ اور عبدالرحمٰن بجنوری نے انگریزی میں مقالہ لکھ کر اقبال کے خیالات کی وضاحت اور ان کی حمایت کی۔
اقبال چونکہ بلاوجہ کا اختلاف اور ہنگامہ آرائی پسند نہیں کرتے تھے اس لیے انھوںنے اسرارِ خودی کے دوسرے ایڈیشن سے حافظ شیرازی سے متعلق اشعار حذف کردیے ۔ اقبال نے دوسرے ایڈیشن سے مقدمہ بھی نکال دیا کیونکہ اقبال کا خیال تھا کہ یہ بہت مختصراورتشنہ ہے اور اس سے لوگوں کے ذہن میں شکوک پیدا ہورہے ہیں۔
حامد حسن قادری نے لکھا ہے کہ اقبال کے ان اشعار سے نہ خواجہ حافظ کی ذات پر چوٹ پڑتی ہے نہ سچے تصوف پر ۔ لیکن یہ ہنگامہ ، اعتراضات اور مباحث اقبال کی وفات تک چلتے رہے۔
اقبال کا نقطۂ نظر اس ضمن میں یہ تھا کہ انھوں نے حافظ شیرازی کی ذات پر نہیں بلکہ ان کی شاعری کے اثرات پر تنقید کی ہے۔ اقبال کے بقول ادب میں عجمی تصوف کے اثر سے طبیعتیں پست ہوجاتی ہیں لیکن صحیح اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے۔ اپنے ایک خط میں اقبال نے جو کچھ لکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مایوسی پیدا کرنے والا ادب زندہ نہیں رہ سکتا۔ قوم کی زندگی کے لیے قوم کا اور اس کے ادب کا پُر امید ہونا ضروری ہے۔
٭حسن نظامی کا رجوع
اہم بات یہ ہے کہ خواجہ حسن نظامی نے( جو اس معاملے میں اقبال کے سخت مخالف ہوگئے تھے ) اپنے خیالات سے آخر ِ عمر میں رجوع کرلیا تھا اورادبی دنیا (لاہور) میں شائع شدہ ایک بیان کے مطابق حسن نظامی نے اپریل ۱۹۵۲ء میں کہا کہ ’’اقبال نے مثنوی اسرار ِ خودی لکھی اور حضرتِ حافظ شیرازی کے کلام اور بعض صوفیوں کے عقائدِ تر کِ دنیا ِ پرتنقید کی جس کو میں نے اور حضرت ِ اکبر الہٰ آبادی نے ناموزوں خیال کرکے اس سے اختلاف کیا۔
کچھ عرصے تک اخبارات میں اختلافی مضامین شائع ہوتے رہے ، مگر آخر کار میرا ان کا اتحاد ِ خیال ہوگیا اور میں نے تسلیم کرلیا کہ ترک ِ دنیا کا وہ تخیل جو بعض صوفیۂ کرام کا ہے وہ وقت ِ حاضر کے لیے موزوں نہیں ہے کیونکہ قرآن میں خدا نے جو دعا سکھائی ہے اس میں دنیا کی بھلائی کو مقدم اور آخرت کی بھلائی کو مؤخر رکھا گیا ہے‘‘۔
حسن نظامی نے کہا کہ ’’ میں لاہور کے جلسۂ عام میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھ میں اور اقبال میں کسی قسم کا اختلاف باقی نہ رہا تھااور میں آج تک اقبال کے ان خیالات کا حامی ہوں جو انھوں نے بعض اہلِ تصوف کے خیالاتِ ترک ِ دنیا کے خلاف ظاہر کیے تھے۔‘‘