پاکستان اور سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کاساتھ دیا ہے ۔سعودی وزیر خارجہ کے زیر قیادت 100رکنی وفد کا یہ دورہ دراصل آئندہ ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی تیاریوں کے سلسلےمیں تھا،وفد کو پاکستان میں پی آئی اے سمیت 25شعبوں میں 32ارب ڈالر سرمایہ کاری کی پیش کش کی گئی،جس میں قریباََ اتنی ہی سرمایہ کاری کا منصوبہ پیٹرو کمپلیکس شامل نہیں ہے ۔اس دورے کی تفصیلات سے یہ نتیجہ اخد کرنا مشکل نہیں کہ اس سے پاکستان سعودیہ اسٹر ٹیجک وتجارتی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کے مزید فروغ کے خواہاں ہیں ۔نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد یوں تو صورتحال میں بہتری دیکھی جا رہی ہے ،اسٹاک ایکسچینج روز بروز مستحکم ہو رہی ہے ،عالمی اداروں کی جانب سے بھی مثبت ردعمل سامنے آرہا ہے ،کرنسی میں استحکام دکھائی دے رہا ہے ،ان سب کو معیشت کی بہتری کی علامت قراردیا جارہاہے ۔بے یقینی اتنی زیادہ ہے کہ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کیاپاکستان اس بدترین معاشی بحران سے نکل سکے گا؟۔کیا معیشت کا پہیہ پھر سے دوڑنے لگے گا؟معیشت ہر ملک کیلئے بڑا چیلنج ہے اور پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک سخت ترین معاشی بحرانوں کی زد میں آئے ہوئے ہیں ۔لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ معاشی استحکام کیلئے ان تمام سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام بھی لازم ہے ۔جو صرف ایک ہی صورت قائم ہوسکتا ہے کہ قانون پر عملدر آمد یقینی بنائیں اور سب سے بڑی ذمہ داری سیاسی جماعتوں اور قائدین کی ہے کہ انہیں تحمل سے کام لینا ہوگا۔ان حالات میں جب سرمایہ کاری کا شور ہے اور دوسری جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات کی نوید بھی سنائی جا رہی ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت سرمایہ کاری معاہدے ضرور کرے کیونکہ اس کے بغیر ملک کی ترقی اور عوام کو ریلیف کی فراہمی ممکن نہیں ۔اس کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا لازم ہے کہ ملکی اثاثوں کی لوٹ سیل نہ لگائی جائے،انتہائی احتیاط کیساتھ ایسے معاہدے کئے جائیں کہ ہمارے اثاثہ جات آنے والی نسلوں کیلئے محفوظ رہیں۔
پاکستان نے سعودی عرب کے تمام تر بڑے خدشات کے سد باب کا وعدہ کرتے ہوئے 32ارب ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری کے25منصوبوں کی پیشکش کی ہے ،جن میں پی آئی اے،ایئر پورٹس کی نجکاری ،کان کئی کی بڑی سائنس سے گوادر تک ریلوے لنک اور بھاشاڈیم ،منیاری،مورو،رحیم یار خان اور غازی بروتھا سے فیصل آباد ٹرانسمیشن لائنز اور سیمی کنڈکٹر چپ بنانے ،50ہزار ایکڑ اراضی کی کارپوریٹ فارمنگ کیلئے لیز اور 10ارب ڈالر کی گرین فیلڈریفائنری سمیت 25شعبے شامل ہیں۔یہ پیشکش دورے پر آئے ہوئے سعودی عرب کے اعلیٰ سطح کے وفد کوکی گئی ،ان منصوبوں میں 2ارب ڈالر کا ایک ریل لنک بھی ہے جو کان کنی کی تمام بڑی سائنس کو گوادر سے ملائے گا۔ان منصوبوں میں اسلام آباد نے طویل عرصے سے تاخیر کے شکار دیا مر بھاشا ڈیم کے منصوبے کو بھی شامل کیا ہے جس میں 2.1ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔فوجی اور سویلین سائیڈ کی جانب سے مشترکہ طور پر چلائی جانے والی ایس آئی ایف سی نے سعودی وفد کے سامنے ایک مفصل پر یز نٹیشن پیش کی اور انہیں ملک کےارتقا پذیر منظر نا مے کے حوالے سے آگاہ کیا۔ایس آئی ایف سی کو سرمایہ کاروں کیلئے ’’ ون اسٹاپ شاپ‘‘ قرار دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ فورم مشترکہ فوجی اور سویلین اقدامات کرتا ہے تاکہ سرمایہ کاری کو تیز کر کے میکر واکنا مک میں استحکام حاصل کیا جا سکے۔
ہر ملک کی قومی خارجہ پالیسی اسکے اپنے مفادات کے تناظر میں ہی مرتب ہوتی ہے۔ آج پاکستان اور چین کا اقتصادی راہداری کا مشترکہ منصوبہ جو اس وقت آپریشنل ہونے کے مراحل میں ہے‘ اس پورے خطے کیلئے گیم چینجر کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کے ناطے سے خطے کے ممالک کی عالمی منڈیوں تک رسائی کے راستے بھی کھل رہے ہیں چنانچہ خطے کے ممالک کی برآمدات کو سی پیک کے ذریعے فروغ حاصل ہوگا تو اس کا براہ راست اور بالواسطہ پاکستان کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ اب برادر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں چھ ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے راستے بھی ہموار ہو رہے ہیں تو آنے والا وقت پاکستان کے بہتر مستقبل اور اسکی معیشت کے استحکام کی نوید سناتا نظر آرہا ہے۔اس خوشگوار فضا کو اپنے حق میں کیش کرانے کیلئے جہاں ہمیں اپنے مکار دشمن بھارت اور افغانستان جیسے بدخواہوں کے عزائم اور سازشوں پر کڑی نظر رکھنی ہے وہیں ہمیں اندرونی طور پر سسٹم کو مستحکم بنانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ہمارے اندرونی اور بیرونی بدخواہ ملک کو انتشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیل کر ملک کی سلامتی سے کھیلنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔اسی تناظر میںسی پیک کو سبوتاژ کرنے اور پاکستان چین دوستی میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی ۔ بھارت نے براہ راست چین پر دبائو ڈال کر اسے سی پیک سے ہٹانے اور پاکستان سے بدگمان کرنے کی کوشش کی جو چین نے بھارت کو یہ باور کراکے ناکام بنائی کہ یہ دو ممالک کا ذاتی معاملہ ہے اس لئے بھارت اپنے کام سے کام رکھے اور سی پیک میں ٹانگ نہ اڑائے۔ اسکے باوجود بھارت سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں سے باز نہیں آیا اور سی پیک پر کام کرنیوالے چینی انجینئروں اور دوسرے چینی باشندوں کو گاہے گاہے دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر وہ پاکستان چین تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ دو ہفتے قبل بھی بھارت نے کابل انتظامیہ کی معاونت سے داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی بس پر خودکش حملہ کرایا جس میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں۔