آج 25؍نومبر ہے یہ دن اقوام متحدہ نے 1999ء سے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے اس دن کی خاص بات یہ ہے کہ میرابل سسٹرز (پیٹریا، منروا، ماریا ٹریسا) کا تعلّق کیریبین جزائر میں واقع ایک چھوٹے سے ملک ’’ڈومینبکن ری پبلک‘‘سے تھا۔
ان تینوں بہنوں نے اپنے ملک کو جمہوریت کی راہ پر گام زن کرنے اور آمریت کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیاہے، جس کی پاداش میں انہیں آمر حکمران، رافیل ترجیلو (Rafeal Trujillo) کے حکم پر 25؍نومبر 1960ء کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔
اس واقعے کے بعد میرابل سسٹرز مزاحمت اور حقوق نسواں کا استعارہ بن کر امر ہوگئیں۔ لیکن پھر ہوا کیا اور ہوکیا رہا ہے۔ معاشرے کی اس اہم اکائی یعنی عورت کو آج بھی صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں خواتین جسمانی، ذہنی جنسی، نفسیاتی اور ڈیجٹیلائزیشن کے بعد آن لائن تشدد کی متعدد صورتوں کا سامنا کررہی ہیں اور جب وہ تشدد یا صنفی امتیاز کے خلاف آواز اُٹھاتی ہیں تو انہیں ڈرا دھمکا اور ہراساں کر کے خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
وہ خواتین جو اپنے اوپر تشدد کی کہانی سناتی ہیں، ان کو زبان دراز، بدکردار کہاجاتا ہے۔ یہ کہنا بے جانا نہ ہوگا کہ بس دنیا دکھاوے کے لئے ’’25؍نومبر‘‘ کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا عالمی دن مناکر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ سب خواتین تشدد کےخلاف ایک پیج پرہیں۔
زیر نظر مضمون میں پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی مختصر جھلک ملاحظہ کریں، پوری دنیا میں بھی صورت حال کچھ اچھی نہیں۔
دماغ کی گیلی گیلی سوچوں سے سانس کا گرم گرم لوبان جل رہا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کڑوی کسیلی خبروں سے ناشتا نہ کیا ہو۔ کھانے میں میٹھا تو جیسے عنقا ہوگیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ صنف نازک جبر کے پنجرے میں کھڑی اپنےناخداؤں سے بھیک مانگ رہی ہے کہ ہمیں بھی جینے کا حق دےدیجئے ۔تھوڑی سی ہوا اور تھوڑی سی روشنی ہمیں بھی درکار ہے۔
ہماری زندگی ایک ادھ کھلے پھول اور ادھ جلے سگریٹ کی طرح پاؤں تلے مسل کر کوڑے کے ڈھیر میں کیوں ایسے پھینک دی جاتی ہے جیسے ہم بھی گھر کا کوڑا ہیں ۔ کبھی بدکردار کہہ کر قتل کر دیا جاتا ہے تو کبھی بے آبرو کر کے ماردیا جاتا ہے۔ کبھی تشددکے پے درپے وار کر کے مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ خود اپنی زندگی ختم کرنے کے درپے ہوجاتی ہے اور کبھی اُس کی ویڈیوز بنا کر، فیک نیوز پھیلا کر اتنا رسوا کیا جاتا ہےکہ وہ جیتے جی مرجاتی ہے۔ گناہ مرد کرتا ہے، سزا عورت بھگتتی ہے۔
یہ کوئی فرضی داستان نہیں ہے بلکہ حقیقت پر مبنی وہ ادھوری داستانیں ہیں جو کبھی پوری سُنی نہیں گئیں لیکن جب جب سنی گئیں یا ان پر بیتے درد ناک مناظر دکھائے گئے، ان کی تصاویر حافظے کی دیواروں پر ایسے چپک گئیں کہ جب انہیں مٹانے، کھرچنے کی کوشش کی تو وہ ہٹنے کا نام نہیں لیتیں اور مسلسل ہانٹ کرتی رہتی ہیں۔ بھلا موٹرے وے، ٹرین ٹریجڈی ، بہاولپور یونی ورسٹی اسکینڈل کو بھلا یا جاسکتا ہے۔
یہ حادثے ذہن سے محو نہیں ہوئےلیکن کسی بھی واقعہ کی جزئیات کو دہرانے کی قلم میں سکت نہیں۔ پے درپے شرم ناک واقعات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت ختم ہوگئی ہے۔ درندے اس لئے آزاد گھوم رہے ہیں کہ ان کو گرفتار کرنے والے، سزا دینے والےخواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ خواتین پر ہونے والا ذہنی ، جسمانی، جنسی اور گھریلو تشدد بڑھتا جارہا ہے، گرچہ شعور کی بے داری کا عمل جاری ہے لیکن تبدیلی زندگیوں میں نظر نہیں آتی۔
نوم چوسکی نے کہا تھا کہ،’’ طاقت ور کے نزدیک ’’جرم‘‘ وہی ہے جو کسی اور شخص سے سرزد ہوا ہو،وہ خود چاہے لاشوں کے ڈھیر لگا دے، انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کردے اپنے ظلم سے دریائے دجلہ کا پانی خون آلود کردے، وہ جرم نہیں بلکہ اُس کا حق کہلاتا ہے۔ لیکن تاریخ نے ایسے لوگوں کو کبھی معاف نہیں کیا ظالم اور قاتل وقتی طور پر بھلے ہی انسانیت کا لبادہ اوڑھ لیں، درباری اُن کی شان میں قصیدے گاتے پھریں، ہر طرف اُن کی واہ واہ ہوتی رہے لیکن تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ وہ ظالم اور وحشی کے طور پر ہی جانے جاتے ہیں پھر اُن کا یہ ظلم نہ صرف اُن کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ثابت ہوتا ہے بلکہ اُن کی آنے والی نسلوں کے پاس بھی ان مظالم پر سوائے شرمندگی، ندامت اور افسوس کے کچھ نہیں رہتا۔‘‘
ظلم، جبر و حشت اور بربریت پر ایک ایساہی الم ناک واقعہ حال ہی میں کراچی میں ہوا، جسے سن اور پڑھ کر دل کانپ گیا لیکن ایک بیٹے کے ہاتھ ماں، بہن بھابھی اور بھانجی کے گلے کاٹتے ہوئے نہ کانپے۔ بیٹے کے ہاتھوں ماں کا قتل ناقابلِ یقین ہے، مگر ہمارے معاشرے میں یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے اس سے قبل بھی کتنی مائیں، بہنیں بیٹیاں بیویاں بے دردی سے قتل کی جاچکی ہیں۔
یہ خونی کھیل کبھی ختم نہیں ہوگا۔ جب دماغ پہ طاقت کانشہ سوار ہو، جب معاشرہ ہر وقت سبق پڑھائے کہ مرد آقا ہے، زمین اس کی ہے، آسمان اس کا ہے، عورت اس کی غلام ہے تو پھر کچھ کہنے سننے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔
ایک واقعہ ہوتا ہے، کچھ دنوں شور ہوتا ہے۔ ایک دن اخبارات کی ہیڈلائن، چینل کی بریکنگ نیوز بنتا ہے، اور پھر تبصروں کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے، تبصرے بھی وہ جس میں موردِ الزام عورت ہی کو ٹہرایا جاتا ہے، کوئی اُس کی تربیت پر انگلی اُٹھا تا ہے تو کوئی اُس کے کردار پر اور وہ بے قصور ہوتے ہوئے بھی منہ چھپاتی پھرتی ہے۔
مشرق ہو یا مغرب، کہیں بھی مقدس رشتوں کا احترام نہیں کیا جارہا، عصمتوں کا تحفظ تو گھر کی چار دیواری میں اُسے نصیب ہے نہ قبر میں۔ ہر روز ایک دل دہلا دینے والا واقعہ بھی حکام بالا کو سوچنے پر مجبور نہیں کرتا۔ حال ہی میں لاہور کالج اور تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات نے اُلجھی ڈوریں مزید اُلجھادیں۔ 10 اکتوبر 2024 کو پنجاب کالج لاہور کے گلبرگ کیمپس سے متعلق ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ،جس میں ایک طالبہ نے کہا ’ہمارے کمپیلکس کے بیس منٹ میں فرسٹ ایر کی ایک طالبہ کا ریپ ہوا، ملزم کالج کا سیکورٹٰی گارڈ ہے، اس کے بعد طلبا نے احتجاج شروع کردیا۔ واقعے کی تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ، سوشل میڈیا پر چلنے والی ’’فیک نیوز‘‘ نے طلبا کو تشدد پر اُکسایا اُنہوں نے ایک ایسے واقعے پر احتجاج کیا جو ہوا ہی نہیں۔
لیکن بے بنیاد خبر اور احتجاج سے ایک طالبہ کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوے ،اس کا کسی کو احساس ہی نہیں۔ والدین، متعلقہ حکام وضاحتیں دیتے رہے کہ سب جھوٹ ہے، افواہ ہے، مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا، بدنام بھی ہوی تو ایک طالبہ، جس کا خمیازہ وہ اور اُس کے اہل خانہ ساری زندگی بھگتتے رہیں گے۔ پاکستان میں جس تیزی سے عورتوں پر تشدد،اُن کی توہین اور بے حرمتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہےاس کا جائزہ لیا جاے تو کئی عشروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ، گڈریے بھیڑیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور کھیت کی باڈ کھیت ہی کو کھا رہی ہے۔
دل خراش واقعات کی گونج،سارا شوروغوغا،کہرام اور حکومت کی ساری پھرتیاں چار دن کی ہوتی ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ پھرتیاں درندوں کی ہوتی ہیں۔ کبھی کسی نے سوچا کہ پاکستان کی نصف آبادی کس عذاب میں گرفتار ہے۔ وہ اسکول، کالج، یونی ورسٹی یا کام کرنے کے لیے نکلیں تو انہیں تحفظ فراہم کرنے کے بجائے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کوئی حادثہ ہوجائے تو مورد الزام بھی انہیں ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان کے گھر سے نکلنے اور لباس پر تنقید کی جاتی ہے۔
علامہ اقبال نے ’’ضرب کلیم‘‘ میں ہند کے شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں پر طنز کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار‘‘۔ 1936ء میں شائع ہونے والی اس تصنیف کو اقبال نے ’’دور حاضر کے خلاف اعلان جنگ‘‘ کا ذیلی عنوان دیا تھا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک طرف اقبال کی زندگی میں ہم عصر مذہبی پیشوا، ان کے مخالف رہے تو دوسری طرح تاریخ نے ثابت کیا کہ عورت شاعروں اور مصوروں کی بجائے طبقہ زیاد کے اعصاب پر سوار ہے۔ 16؍اگست 2024ء کو تحریک انصاف کے ایم این اے، اقبال آفریدی نے ایک اجلاس میں کراچی الیکٹرک کمپنی کی ایک خاتون افسر کے لباس پر نہایت نازیبا تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ایسے اجلاسوں میں لباس کے معیارات مقرر ہونے چاہئیں، کیوں کہ قوم اپنے نمائندوں کو رول ماڈل کے طور پر دیکھتی ہے۔
اس سے قبل تحریک انصاف کے بانی نے نومبر 2006 میں تحفظ نسواں کے مسودہ قانون کی مخالفت کی تھی اور 22؍جون 2021ء کو بہ طور وزیراعظم عالمی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’مرد روبوٹ نہیں ہیں‘ عورت نامناسب لباس پہنیں گی تو مردوں کو ہراسانی کی تحریک ملے گی‘‘۔ یہ کہنا کہ عورت اپنے لباس ،چال ڈھال سے مرد کو موقع دیتی ہے، لیکن معصوم بچیوں کے ساتھ جو زیادتی ہوتی ہے، کیا وہ اپنے لباس، حرکتوں، بنائو سنگھار سے انہیں راغب کرتی ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں بچیوں کی بے حرمتی اور قتل کے واقعات میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اخبارات ایسی ہول ناک خبروں سے سیاہ ہیں۔ جب ماں بہنوں کو بے دردی سے قتل کردیا جائے تو باہر نکلنے والی عورتوں کو آبرو باختہ کیوں نہ سمجھا جائے۔ معصوم بچیوں سے صرف ہوس کا تعلق رہ جائے تو جان لیجئے کہ لاوا پھٹنے والا ہے۔
ایک طرف جنسی ہراسانی ہے تو دوسری طرف گھریلو تشدد۔ واقعی انسانوں کو انسانیت سکھانے کی ضرورت ہے لیکن کون سکھائے۔ اب تو پڑھا لکھا طبقہ بھی اس بہیمانہ تشدد میں شریک ہوگیا ہے۔ بھول سکتا ہے کوئی 14 سالہ گھریلو ملازمہ رضوانہ کو، جو اسلام آباد کےایک سول جج عاصم حفیظ کے گھر میں کام کرتی تھی، جو روز ہی بیگم صاحبہ کے ہاتھوں ،پیروں ہی کے نہیں زبان کی زد میں بھی آتی تھی لیکن اُ س دن اُنہوں نے تشدد کی ساری حدیں پار کر لی تھیں، اُسے اتنا مارا کہ اُ س کے جسم کی بیشتر ہڈیاں توٹ گیئں۔
گرچہ ہم ہر لمحہ طرح طرح کی آوازیں سنتے ہیں مگر ٹی وی اسکرین پر رضوانہ کی ماں کی آوازیں کانوں کے پردے پھاڑتے ہوئے دل و دماغ میں گھس رہی تھیں، وہ بیٹی کے جسم پر تشدد کے نشانات دیکھ کر زار زار روتے ہوئے کہہ رہی تھی، ’’میری بچی تو اتنا کچھ سہہ گئی، مجھے کچھ بتاتی تو سہی، اب تو بتادے، کیا ہوا تیرے ساتھ‘‘۔لیکن وہ کچھ بولنے کے قابل ہوتی تو بتاتی۔ اسپتال کے بستر پر پڑی رضوانہ کی جو تصاویر اور ویڈیوز منظر عام پر آئیں وہ دل دہلانے دینے والی تھیں۔
یہ کیس پاکستان کے نظام انصاف کے لیے ایک اور ٹیسٹ کیس تھا۔ لیکن واہ رے ہمارا نظام عدل ،دیگر کیسوں کی طرح یہ کیس بھی فائل میں بند ہوگیا۔صرف رضوانہ ہی نہیں گھریلو کم سن ملازموں پر تشدد کے ان گنت واقعات منظرعام پر آئے۔ تحقیقات کرنے اور مجرموں کو انصاف دلانے کے دعوے بھی کیے گئے لیکن آج تک کسی کو سزا نہ ہوئی،نہ صرف یہ بلکہ معصوم بچیوں کے جسم پر جو بیتا، وہ کوئی کیسے سن سکتا ہے۔ کم سن ترنم عزیز کیس، زینب، فاطمہ اور فرشتہ پر جو بیتی وہ کوئی بھول سکتا ہے۔
نواب پور میں سات عورتوں کو برہنہ کر کے پورے علاقے میں گھمانے کا واقعہ بھولنا ممکن ہے اور جب یہ ہو رہا تھا تو لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے لیکن پھر وہ عورتیں اس علاقے میں نہ رہ سکیں۔ یہ سب سچ بیانیاں ہیں، مگر زندگی کے شوروغل اور مصروفیات نے ہمیں کبھی اس تلخ سچائی کی تہہ تک پہنچنے کا موقع ہی نہیں دیا اور اگر دیا بھی تو شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دباکر اس بھیانک تشدد سے چشم پوشی کرتے رہے جو معصوم بچیوں اور خواتین پر کیا جاتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عورت کے رویے تولنے کے لئے بھی ایک میزان ہے، جو صبح شام عورت کو امتحان کے پل صراط سے گزارتا ہے۔
اگر وفادار ہے تو شریف عورت،آزاد خیال ہے تو دو ٹکے کی، قربانی دے تو پارسا، کسی بات پر انکار کرے تو دو کوڑی کی۔ زبان بند رکھے تو نیک، جواب دے تو بے حیا۔ ظلم برداشت کرے تو اعلیٰ کردار کی،اپنا راستہ تلاشنا چاہئے تو بدکردر، طلاق مانگے تو بے حیا، خلع لے لے تو کوٹھے پر جاکر بیٹھ، مار کھاکر خاموش رہے تو کہا جائے دال میں کالا ہے۔
ایک طرف یہ صورت حال تو دوسری طرف شوہر مارے تو ساتھیاں کہیں، تم نے بہت غلط کیا جو پہلی دفعہ مار کھائی ،تم بھی فوری اس کے منہ پر تھپڑ مار دیتیں۔ مار نہیں سکتی تھیں تو ہاتھ تھام لیتیں اور کہتیں، اب ایسا نہیں ہوسکتا۔ لیکن وفا کی پتلی کیسے کہتی یہ سب کچھ، اسے پتا تھا۔ کچھ ہوجائے تو الزامات مجھ پر ہی عائد ہوں گے۔
طلاق کا مطالبہ کروں گی تو گھر والے کہیں گے ہمیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ جیسا بھی ہے اب وہ تمہارا مجازی خدا ہے۔ آج ماراہے تو کل محبت بھی کرے گا۔ واہ رہی عورت۔اُس کے کردار پر اُ ٹھنے والی اُنگلیاں،جن میں اُلجھ کروہ اس طرح جیتی ہے جیسے کوئی مجبوری میں جیتا ہے۔یہ دنیا جو کمزور عورت کو جینے کاحق نہیں دیتی، کیا اس دنیا کے مردوں کوقانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کرنا چاہیے۔
کیا اس دنیا کو گھن گھرج کر یہ نہیں کہا جائے کہ عورت بھی انسان ہے،اسے جیتے جی مارنے کاحق کسی کو نہیں۔ آخر تان عورت پر ہی کیوں ٹوٹتی ہے، اُس مرد کو کیوں کچھ نہیں کہا جاتا ،جو گناہ بھی کرتا ہے،اپنی ہوس بھی پوری کرتا ہے، تشدد بھی کرتا ہے، پھر جا ن سے مار بھی دیتا ہے اور قانون کی گرفت سےصاف بچ بھی جاتا ہے۔
بہت ہو گیا ،آئیے اپنا مقدمہ اس آخری عدالت میں پیش کریں، جس سے کسی کو مفر نہیں، اس یوم حساب کو جس کے بارے میں کہا گیا ’’اور جب اس بچی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو، پوچھا جائے گا کہ کس گناہ کے سبب وہ قتل کر دی گئی‘‘ القرآن۔
چند سال قبل گینگ ریپ‘‘ کی ایک متاثرہ خاتون عدالت کے کٹہرے میں کھڑی پے درپے سوالات سے پریشان ہوگئی تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور چیختے ہوئے کہا مجھے بھری عدالت میں زیادتی کانشانہ بنایا جارہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متاثرہ عورت کے ساتھ بار بار زیادتی ہوتی ہے۔
تھانے میں ایف آئی آر درج کروانے سے لے کر ملزمان کی شناخت اور وکیلوں کی جرح تک۔ خاندان والوں کی ’’تعزیت‘‘ کرنے کے بعد ’’الف سے ے تک‘‘ کی کہانی سننے تک، شوہر اور سسرال والوں کے ایسے چبھتے سوالات جیسے وہ ہی مجرم ہے پھر تھانے دار کے ایسے سوالات جیسے وہ ملزم ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ پولیس کی تفتیش سے لے کر پولیس سرجن تک، پوسٹ مارٹم سے لے کر ڈی اے تک مقدمہ جب عدالت پہنچتا ہے تو اس کی شکل ہی کچھ اور ہوجاتی ہے۔ الغرض یہ کہ ہمارا’’نظامِ عدل‘‘ کریمنل جسٹس سسٹم مدعی کو ملزم اور ملزم کو مجرم بنادیتا ہے، یوں اصل مجرم صاف بچ نکل جاتے ہیں اور پھر کوئی دوسرا واقعہ رونما ہوجاتا ہے، پھر وہی فائل کھل جاتی ہے جو اس سے پہلے بار بار کھولی گئی تھی ،بس نام بدل جاتا ہے کبھی زینب تو کبھی فرشتہ، کبھی موٹروے پر خاتون کے ساتھ زیادتی تو کبھی چلتی ٹرین میں ٹریجڈی، کبھی بھاولپور یونی ورسٹی کیس تو کبھی پنجاب کالج۔
لیکن واہ رے نظامِ عدل، مجرموں کو آج تک سزا نہ ملی اور متاثرہ خاتون کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑی بار بار اُس کا ریپ ہوتا رہا لیکن قانون حرکت میں نہ آیا متاثرہ خاتون کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ اسے قبول بھی کرے گا یا نہیں؟ اس کا شوہر، اہل خانہ اور سسرال والے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ نہیں…؟
پارلیمان نے اکتوبر 2016ء میں خواتین اور بچوں کو جنسی درندوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک قانون منظور کیا، جسے فوجداری ترمیمی قانون (ریپ سے متعلقہ جرائم) ایکٹ 2016کا نام دیا گیا ۔ ایکٹ میں نہ صرف ریپ اور زیادتی کے ملزمان کے لئے سزائے موت مقرر کی گئی بلکہ متاثرہ خاتون، بچے یابچی کا بیان ریکارڈ کرنے، شواہد اور میڈیکل کرنے سمیت ہر پہلو کا احاطہ کیا گیا۔ اس قانون کے ڈرافٹ کی تیاری کے لئے سابق مشیر قانون ببرسٹرظفراللہ کے ساتھ معاونت کرنے والے جیورسٹ شرافت اے چوہدری تھے۔
سال 2016ء میں پاکستان پینل کوڈ 1860ء کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898ءاور قانون شہادت 1984ءمیں اس قانون کے ذریعے کی گئی ترامیم میں وہ تمام خلا پُر کردیئے گئے تھے جو ریپ یا زیادتی کے کسی بھی ملزم کو سزا سے بچ جانے میں مددگار تھے۔ جو ترامیم اس میں شامل کی گئیں ان کے تحت متاثرہ خاتون ، بچے یا بچی کو مقدمہ درج کرانے کے لئے پولیس اسٹیشن جانے کی ضرورت نہیں بلکہ پولیس خود متاثرہ خاتون کے پاس جائے گی۔
اس قانون میں یہ بھی درج ہےکہ پولیس خاتون افسر بیان ریکارڈ کرنے ساتھ جائے گی اور متاثرہ فریق کی قربیی عزیزہ کی موجودگی میں بیان ریکار کیا جائے گا۔ اس میں ریپ کے شکار کی شناخت ظاہر نہ کرنے پر پابندی عائد کی گئی اور خلاف ورزی کی صورت میں تین سال کی سزا بھی مقرر کی گئی۔
قانون کے تحت ملزمان کو فائدہ پہنچانے کے لئے تفتیش میں گڑبڑ کرنے یا اس میں نقائص چھوڑنے والے تفتیشی حکام کے لئے بھی تین سال قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی گئی عام طور پر یہ صرف ریپ یا زیادتی کے شکار کا میڈیکل ہوتا ہے لیکن اس قانون کے تحت ملزم کا زبردستی میڈیکل کرنے کا بھی ذکر کیا گیا، تاکہ وہ موقع پہ پکڑے جانے پہ شواہد کو ضائع نہ کرسکے۔
ایسے کیسز میں اکثر کہا جاتا ہے کہ مخصوص ڈاکٹر ہی میڈیکل ایگزامیشن کرے گا لیکن اس قانون میں درج کیا گیا کہ کوئی بھی رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنزوقت ضائع کئے بغیر فوری میڈیل ایگزامیشن کرے گا اور متاثرہ خاتون کی صورت میں خاتون میڈیکل پریکٹیشنز میڈیکل ایگزامیشن کرے گی۔ اس میں حکومت کی طرف سے متاثرہ فریق کو مفت قانونی امدا کی فراہمی کی شق بھی درج کی گئی ہے، جب کہ زیادتی یا ریپ کے ٹرائل کو(ان کیمرا) تین ماہ میں نمٹانے کی پابندی بھی عائد کی گئی۔
اسی قانون میں طے کیا گیا کہ عمرقید کی صورت میں شواہد کی بنیاد پہ کم سے کم سزا دس سال اور زیادہ سے زیادہ25 سال دی جائےگی۔ عمر قید کی سزا کو تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔ جب کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کو بھی چھ ماہ میں نمٹانا ہوگا۔ سال 2016ءمیں ایکٹ کا درجہ پانے والے اس قانون کی موجودگی میں یہ بحث غیر ضروری ہے کہ زیادتی اور ریپ کے ملزمان کو سزا دینے کے لئے قوانین موجود نہیں۔
واقعہ ہے 7؍اپریل 2024کا۔ مجرم ہے قانون کا محافظ اور نشانہ بنی، دو معصوم بچوں کے ساتھ سفر کرنے والی ماں مریم۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سات اپریل کو مریم ملّت ایکسپریس میں کراچی سے اسلام آباد کے لیئے اپنے دو بچوں کے ہمراہ ٹرین میں سوار ہوئی تو ایک پولیس کانسٹیبل کی نظر اُس پر پڑی اور اُس کی نیت خراب ہوگئی۔
دورانِ سفر کانسٹیبل لڑکی کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کرنے لگا۔ خاتون نے اپنا تحفط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ کانسٹیبل نے مریم پر ٹرین کے ڈبے میں وحشیانہ تشدد کیا اور اُسے گھسیٹتا ہوا دوسرے ڈبے میں لے گیا جہاں اُس نے حوّا کی بیٹی کی عزّت نا صرف تار تار کردی بلکہ اُس پر اتنا تشدد کیا کہ وہ جان کی بازی ہار گئی۔ 18؍اپریل کی صبح چھ بجے بہاولپور پولیس کے ایک اے ایس آئی نے مریم کے بھائی کو فون کر کےکہا، تمہاری بہن ٹرین سے گر کر ہلاک ہوگئی ،آکر اُس کی لاش لے جاؤ۔
بھائی روتا دھوتا بہن کی لاش لینے آیااور اُسی دن اُس کی تدفین کردی گئی۔ اُس وقت تک مریم اور اُس کے گھر والوں کو علم نہیں تھا کہ مریم کی موت کیسے ہوئی ۔دو دن بعد سوشل میڈیا پرجب مریم پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی تو گھر والوں کو علم ہوا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ کیا ہوا۔
مجرم پولیس کا نسٹیبل مہر حسن ویڈیو میں نمایاں تھا، پھر بھی اُسے گرفتار نہیں کیا گیا، ایسے میں اُس کا حوصلہ بڑھے گا اور کل وہ کسی اور حوّا کی بیٹی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنائے گا ۔ یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ٹرین میں مریم کی مدد کرنے کے لئے کوئی کیوں آگے نہیں بڑھا…؟
اس سے قبل ستمبر 2020ء کی وہ ہول ناک رات بھی کوئی نہیں بھول سکتا،جب رات گئے لاہور موٹروے پر ایک خاتون اپنی گاڑی میں دو بچوں کے ساتھ سفر کررہی تھی کہ گاڑی میں پیٹرول ختم ہوگیا۔ اس نے موٹروے پولیس کی ہیلپ لائن پر رابطہ کیا تو اُسے جواب ملا کہ موٹروے کا یہ حصہ ہماری حدود میں نہیں آتا۔
اسی دوران دو درندے خاتون اور اس کے بچوں کو موٹروے سے نیچے جنگل میں لے گئے، جہاں انہوں نے عورت کے ساتھ اُس کے بچوں کے سامنے زیادتی کی نہ صرف یہ بلکہ خاتون کی گاڑی سے جیولری اور رقم لے کر فرار ہوگئے۔دوسرے روز جب یہ خبر منظرِ عام پر آئی تو پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن گئی۔
ایک لحاظ سے ٹرین ٹریجڈی، موٹروے ٹریجڈی سے بھی زیادہ سنگین ہے، کیوںکہ موٹروے حادثہ آدھی رات کو ایک ویران سڑک پر پیش آیا تھا، جب کہ ٹرین واقعہ چلتی گاڑی کے ڈبے میں درجنوں مسافروں کے سامنےپیش آیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مسافر اتنے بے حس اور بے بس تھے کہ ایک وحشی کا نسٹیبل کو گرفتار نہ کرسکے۔ یہ اور اس جیسے واقعات ایک آئینہ ہیں، جس میں ہم سوسائٹی اور سکیورٹی کا بھیانک چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔
ٹرین ٹریجڈی میں زندگی کی بازی ہارنے والی مریم کی ماں نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز سے درخواست کی تھی کہ انہیں انصاف دلوائیں لیکن کیا ہوا؟ انصاف ملا ؟ جواب ہے نہیں… کیا ملزم گرفتار ہوا؟ جواب ہے نہیں۔ اب سوچیں طاقت ور کون؟
2010ء میں خواتین کو کام کی جگہ پر اور تعلیمی اداروں میں تحفظ دینے کے لئے ایک قانون منظور ہوا تھا، قانون تو لاگوہے، لیکن اس قانون کے تحت تمام صوبوں میں محتسب کے ادارے قائم کیے جانے تھے، جن کا کام ہراساں کی جانے والی خواتین کے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرانا تھا، لیکن کسی بھی صوبے میں اب تک ایسا کوئی ادارہ قائم نہیں کیا جاسکا۔ قانون کے تحت تعلیمی اداروں میں بھی کمیٹیاں قائم کی جانی تھیں، لیکن کوئی کمیٹی تاحال قائم نہیں ہوئی۔