بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا مشن مذاکرات کے لیے وزارتِ خزانہ پہنچ گیا جہاں اس کے وزارتِ خزانہ کے حکام سے مذاکرات ہوئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف مشن سے مذاکرات میں پاکستان کی طرف سے وزیرِ خزانہ، سیکریٹری خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور گورنر اسٹیٹ بینک بھی شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن اور پاکستانی حکام کے درمیان تعارفی سیشن میں پیش رفت ہوئی ہے، وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ وفاقی بجٹ کے لیے اہم اہداف طے کر لیے گئے۔
وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف میں اتفاق ہوا ہے کہ آئندہ مالی سال کے دوران اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے حکومت قرض نہیں لے گی، بیرونی ادائیگیاں بلا تاخیر بروقت کی جائیں گی۔
مذاکرات میں اتفاق کیا گیا کہ ایف بی آر ٹیکس ریفنڈ ادائیگیاں بر وقت کرنے کا پابند ہو گا، زرِ مبادلہ ذخائر بہتر بنانے اور ادائیگیوں کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں بانڈز جاری کیے جائیں گے۔
وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کیا ہے کہ درآمدات پر پابندی نہیں ہو گی، انٹرنیشنل ٹرانزیکشنز کے لیے بھی پابندی عائد نہیں کی جائے گی۔
مذاکرات میں طے ہوا ہے کہ اسٹیٹ بینک، وزارتِ خزانہ اور وزارتِ توانائی کی معلومات آئی ایم ایف کو بھیجی جائیں گی، آئی ایم ایف ایف بی آر، شماریات بیورو اور مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ کی معلومات بھی لے گا۔
وزارتِ خزانہ کے حکام کی آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے علاوہ نئے مالی سال کے بجٹ پر بھی مشاورت جاری ہے۔
آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان ابتدائی تعارفی سیشن ختم ہو گیا جس کے بعد آئی ایم ایف وفد کے اراکین وزارتِ خزانہ سے واپس روانہ ہو گئے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان یہ مذاکرات تقریباً 2 ہفتے تک جاری رہیں گے۔
پاکستان آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالرز سے زائد کے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے پُر امید ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ مذاکرات کے لیے معاشی ٹیم نے تمام ورکنگ مکمل کر لی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلیٹی قرض پروگرام کے لیے ورکنگ پیپر تیار کیا گیا ہے۔