مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
بلاشبہ، ماں کا وجود ایک نعمت اور اللہ رب العزت کا بیش بہا انعام ہے، اس بے لوث رشتے کا کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی کوئی اس سے زیادہ، اولاد سے محبّت کا دعوے دار ہوسکتا ہے۔ ہماری والدہ، سعیدہ خاتون، جنھیں ہم بھائی بہن انتہائی چاہ سے ’’امّی جان‘‘ کہہ کر پُکارا کرتے تھے، نہایت ہی صابر، شاکر اور بردبار خاتون تھیں۔ اپنی اولاد کو وہ اپنی سب سے بڑی دولت کہا کرتیں۔ اُنہوں نے نہ صرف ہم سب بہن بھائیوں کی نہایت توجّہ سے پرورش کی، بلکہ بہترین تربیت بھی فراہم کی۔
ہماری خوش بختی ہے کہ ہم سب بہن بھائیوں نے ابتدائی تعلیم اُن ہی سے حاصل کی۔ ہمیں حروفِ تہجّی سے آشنا کروانے کے بعد، پینسل سے کاغذ پر لکھنا سکھایا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم سب بہن بھائیوں کو اسکول میں داخلے کے وقت کسی بھی قسم کی کوئی دقّت یا مشکل پیش نہ آئی۔ ہم بآسانی نمایاں نمبرز کے ساتھ تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد جلد ہی برسرروزگار ہوگئے۔ یہ امّی جان ہی کی محنتوں کا ثمر ہے کہ آج ہم ساتوں بہن، بھائی بہترین اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ امّی جان ہماری تعلیم و تربیت پر خاص توجّہ دیتی تھیں، روزانہ باقاعدگی سے ہوم ورک کروانے کے علاوہ رات گئے دیر تک ہمیں پڑھانا اُن کامعمول تھا۔
اُس زمانے میں ٹی وی نشریات شام کو شروع ہوا کرتی تھیں، تو ہمارے گھر میں کچھ دیر کے لیے ٹی وی کھولا جاتا تھا، مگر امتحانات کے دنوں میں رات کو ٹی وی دیکھنے کی سختی سے ممانعت تھی۔ اس دوران گھر میں مکمل طور پر پڑھائی کا سماں رہتا۔ رات آٹھ بجے ٹی وی پر مختلف ڈرامے ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے، جو امّی جان شوق سے دیکھتی تھیں، لیکن ہمارے امتحانات کے دنوں میں وہ خود بھی اپنے پسندیدہ ڈراموں کی قربانی دے دیتیں، حالاں کہ اُس زمانے میں ڈرامے نشرِمکرّر کے طور پر پیش کیے جانے کا تصوّرتک نہیں تھا، اگرڈرامے کی کوئی قسط چھوٹ جاتی، تو کسی طور اسے دوبارہ دیکھنا ممکن نہ تھا، اگلے ہفتے، اگلی ہی قسط نشر ہوتی۔
مطلب یہ کہ امّی جان ہماری تعلیم پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا یا رخنہ برداشت نہیں کرتی تھیں۔ اُنھوں نے گھر کی فضا اور ماحول مکمل طور پر لکھنے پڑھنے والا بنا رکھا تھا اور ہم سب بہن، بھائیوں میں بھی پڑھائی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ و دو اور مقابلہ چلتا رہتا کہ کس نے امتحان میں کتنے نمبرز لیے اور کون کس مضمون میں آگے اور کون پیچھے ہے۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے دادا، دادی بھی ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔
ہمارے دو چچا بھی تھے، مگر دادا، دادی ہمارے ہی گھر رہنے کوترجیح دیتے۔ امّی جان اُن کی جی جان سے خدمت کرتیں اور ہمیں بھی اُن کی خدمت کی تلقین کرتے ہوئے کہا کرتیں کہ ’’بیٹا! جتنا ممکن ہو، بزرگوں کی خدمت کیا کرو، اُن کی دعاؤں سے زندگی سہل ہوتی، بگڑے کام سنور جاتے ہیں۔‘‘ اور واقعی یہ ہمارے والدین کے بعد دادا، دادی ہی کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ہم تمام بہن، بھائی تعلیمی مدارج اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ طے کرنے کے بعد آج اہم عہدوں پر فائز خوش حال زندگیاں گزار رہے ہیں۔
امّی جان اٹھتے، بیٹھتے، چلتے پِھرتے ہمیں اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کی تعلیم دیتیں۔ مثلاً ’’غریبوں سے نیک سلوک کرو، اللہ بہت نوازے گا۔ باہم رواداری سے رہو، ایک دوسرے کا احترام کرو، آج تم سب بھائی، بہن ایک ساتھ اکٹھے زندگی گزار رہے ہو، شادی کے بعد جب الگ الگ گھروں میں مقیم ہوجاؤ گے، تو یہ وقت اور ماں، باپ کی چھاؤں تلے آپس کا اُٹھنا بیٹھنا، پڑھنا، لکھنا سب بہت یاد آئے گا۔‘‘
امّی جان کی تربیت کا ایک پہلو، جس نے مجھے بہت نفع پہنچایا، وہ یہ تھا کہ وہ بیٹیوں کی تربیت پر خاص توجّہ دیتی تھیں۔ بچپن ہی سے گھرداری کے جملہ امور سکھانے کے لیے چھوٹے موٹے کام ہمارے سپرد کردیتیں، چھٹّیوں میں امورِ خانہ داری کے سلسلے میں سلائی کڑھائی بھی کرواتیں۔ مَیں اپنی بہنوں میں چوں کہ تیسرے نمبرپر تھی اور میرا دل گھر کے کام کاج سے زیادہ پڑھائی میں لگتا تھا، تو اکثر گھر کے کاموں میں ڈنڈی مارجاتی یا سیکھنے کی کوشش ہی نہ کرتی، تو امّی جان بڑے پیار سے سمجھاتیں کہ ’’بیٹی! گھرداری نہیں سیکھوگی، تو تمہاری ساری قابلیت بھی دھری کی دھری رہ جائے گی اور زندگی گزارنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘ مَیں اس بات پر معصومیت سے کہتی کہ ’’امّی جان! مَیں گھر کے کاموں کے لیے نوکر رکھ لوں گی۔‘‘ تو بڑے پیار سے سمجھاتیں، ’’بیٹی! نوکر بھی اُس وقت ہی صحیح کام کرتے ہیں، جب مالک کو وہ کام آتا ہو، ورنہ نوکر، مالکوں کو چلاتے ہیں۔‘‘ خیر، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مَیں امّی جان کی نگرانی میں سلائی، کڑھائی اور گھر کے دیگر کاموں میں طاق ہوتی چلی گئی۔
آج مَیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں کہ امّی جان نے جو کچھ سِکھایا، اس کی بدولت مجھے کبھی بھی ملازمت کرتے ہوئے بھی اپنا گھر سنبھالنا مشکل نہیں لگا، حالاں کہ جب مَیں اپنی ساتھی کولیگز کو دیکھتی ہوں، تو مستقل نوکر رکھنے کے باوجود نہ اُن سے گھر سنبھل پاتا ہے، نہ بچّے، تو ایسے میں امّی جان کی وہ نصیحتیں اور تربیت یاد آتی ہے کہ کس طرح انھوں نے ہماری تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑکر اس قابل بنادیا کہ اب ہم مشکل سے مشکل کام بھی بہت آسانی سے کرلیتے ہیں۔ آج جب میرے بچّے تعلیمی میدان میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو میں اُن سے یہی کہتی ہوں کہ ’’بیٹا !یہ ہمارے بزرگوں، خصوصاً میری ماں کی دعاؤں کا ثمرہے، ورنہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا؟، اللہ ربّ العزت میری امّی جان کو جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔ (پروفیسرفرحانہ حمید، لطیف آباد، حیدرآباد)