• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز قبل یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پیز)کا وزارت خزانہ پر واجب الادا رقوم کا حجم 1800ارب روپے اور توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2310ارب روپے تک پہنچ چکا ہے ،اس سے بڑھ کر باعث تشویش بات یہ ہے کہ ایندھن کی سپلائی بہتر بنانے کیلئے انھوں نے حکومت سے فوری ادائیگیوں کا تقاضا کیا ہےبصورت دیگر بجلی کی پیداوار میں کمی کا خدشہ اورلیٹ پے منٹ سرچارج بھی عائد ہونگے۔آئی ایم ایف مشن اسلام آباد میں اپنی موجودگی کے دوران پاکستان پر بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگیوں کی صلاحیت کا جائزہ لے رہا ہے،اس ساری صورتحال سے نکلنے کیلئے پاکستان دوست ملک چین سے یہ درخواست کرنے کی فکر میں ہے کہ آئی پی پیز کو دینے کیلئے15.3ارب ڈالر کے قرضے کو پانچ سال تک توسیع دی جائے۔تجزیہ کاروں کے مطابق اس عمل کیلئے پاکستان کو چینی حکومت کی آمادگی درکار ہوگی ۔موصولہ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ اگر چینی آئی پی پیز کے قرضے پر توسیع مل جاتی ہے تو اس کا حجم 15.3 سے بڑھ کر 16.61ارب ڈالر ہوجائے گا۔ پاکستانی حکام کی ممکنہ توجیہہ ہے کہ بجلی کے موجودہ ٹیرف اسٹرکچر کے تحت کی جانے والی ادائیگیوں سے صارفین بہت زیادہ مالی بوجھ کا شکار ہیں ، مدت میں توسیع سے یہ بوجھ کم ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ سی پیک کے تحت ملک میں مجموعی طور پر آئی پی پیز کے 21پراجیکٹ ہیں ،جن میں سے 8کوئلے،4ہائیڈرل،8ہوا جبکہ ایک ٹرانسمیشن لائن کا ہے ۔ پاکستان کے چینی حکام کے ساتھ ممکنہ مذاکرات سے صارفین پر بجلی کے بلوں کابوجھ کم کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف جون کے پہلے ہفتے میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں ،اور اس تناظر میں کہ عام آدمی بجلی کے ہوشربا ٹیرف سے سخت پریشان ہے،امید ہے کہ وہ چینی حکام سے مثبت رد عمل لے کر لوٹیں گے اور آئی ایم ایف سے بھی یہ توقع بے جا نہ ہوگی کہ توانائی کی قیمتوں میں کمی کرنے کیلئے اپنا کردار اداکرے ۔چند ماہ قبل امریکہ میں قائم انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ریسرچ لیب کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین کی جانب سے گزشتہ 21برس میں پاکستان کو 68ارب ڈالر سے زائدکا قرضہ فراہم کیا گیا،جس میں دو فیصد رقم امداد کی صورت میں دی گئی،یوں پاکستان 2000سے اب تک چین سے قرض حاصل کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہےاور اس سے بھی زیادہ رقم حاصل کرنے والے ممالک روس اور وینزویلا ہیں ،جنھوں نے بالترتیب 169ارب ڈالر اور112ارب ڈالر کے لگ بھگ رقوم بطور قرضہ چین سے لے رکھی ہیں۔یہ صورتحال بتاتی ہے کہ امریکہ سمیت بہت سے ترقی یافتہ ممالک دوسروں کے مقروض ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ تقابلی جائزے میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیشتر ممالک قرضے اتارنے کیلئے مزید قرضے نہیں لیتے اور وہاں کی حکومتیں محصولات کے جو اہداف مقرر کرتی ہیں وہ اندرونی ذرائع سے پورا کیا جاتا ہے ۔رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں چین سے 37ارب ڈالر ،تحریک انصاف کے دور میں 19ارب ڈالر،پیپلز پارٹی 10ارب جبکہ پرویز مشرف کے دور میں 4.1ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔بعض حلقوں کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے کہ پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر اور غریب ممالک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا گیا ہے لیکن حقیقت پر مبنی بات یہ ہے کہ پاکستان پر چڑھے قرضے اس کی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔اب سر پر بار بار دیوالیہ پن کے خطرات منڈلا رہے ہیں ،یہ ناگزیر ہوچکا ہے کہ محاصل بڑھانے اور قرضے اتارنے کیلئے پیداواری کلچر کو فروغ دیا جائے، جس کیلئے قلیل،درمیانے اور طویل مدتی پروگرام تشکیل دینا اولین شرط ہے۔

تازہ ترین